جائیں گے تو ان کے بھرے میں کبھی نہ آتا۔ بلکہ شروع میں تو یہ اپنے قریب کرتے ہیں اور جب آدمی ان کے قریب ہوتا ہے تو اس کے اردگرد کے عزیزواقارب اس سے باز پرس کرتے ہیں تو وہ صرف ان کی انفرادی تعریفیں اور تبلیغی اعدادوشمار اور تنظیمی سرگرمیوں تک کو بیان کرتا ہے کہ وہ اچھے لوگ ہیں۔ نہ ہی اس معاملہ کو اس پر آشکار کیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ اس کا اظہار کر سکتا ہے۔ بس جب پوری طرح ان کے چنگل میں پھس جاتا ہے تو لوگ اس کو مرزائی کہنے لگتے ہیں اور وہ ضداً مرزائی ہونے کا اقرار کر گزرتا ہے اور پھنستا چلا جاتا ہے۔
چند مثالیں
یہ صرف مفروضہ نہیں، میں اس کی کئی مثالیں دے سکتا ہوں اور ایسے انسانوں کے نام تک گنوا سکتا ہوں جو اس طرح مرزائیت کے قریب ہوئے اور پھنستے چلے گئے اور آج تک گومگو میں مبتلا ہیں۔ اعلانیہ مرزاقادیانی کی نبوت کا اقرار بھی نہیں کرتے اور اپنے آپ کو مرزائی بھی کہتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو مرزاقادیانی کی نبوت کا انکار بھی کرتے ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو مرزائی سمجھتے ہیں اور کہلواتے ہیں۔ اس طرح قادیانی حضرات ہم کو زبانی کافر نہ کہنے سے اپنے اندر کے بغض کو چھپاتے ہیں اور اپنے عقیدہ سے بھی منافق ہیں۔ جب کہ عملاً وہ تمدنی معاشرتی اور مذہبی روابط منقطع کر لیتے ہیں تو خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کہ ہمارے بارے میں ان کا طرز عمل کیا ہے۔ اس لئے حاصل مدعا یہ ہے کہ ہمارا ان سے اصل اختلاف یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ ہمارے جنازوں میں کیوں شرکت نہیں کرتے اور ہم سے رشتہ ناطہ کیوں نہیں کرتے۔ بلکہ اصل اختلاف تو صرف اور صرف یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو کہ جھوٹا ہے اور مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی ماننے والا ہر انسان دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ قادیانی حضرات کے لئے سیدھی سی بات صرف یہ ہے کہ اگر مرزاقادیانی کو نبی مانتے ہیں تو ان کی نبوت سے انکار کرنے والے ہر انسان کو کافر سمجھیں۔ کیونکہ یہی اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اگر مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے تو واضح اعلان کریں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اگر نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ جیسا کہ ان کی تحریروں سے ثابت ہے تو وہ کاذب اور جھوٹا مدعی نبوت تھا وہ دائرہ اسلام سے خارج اور جہنمی