کے ساتھ اگر لفظ مسلمان کا نہ ہو تو صاف ظاہر ہے کہ غیرمسلم ٹھہرے۔ اگر مبارک محمود صاحب کا یہ مدعا نہ ہوتا تو عبارت یقینا یوں ہوتی کہ احمدی مسلمان غیراحمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ اب بات تو صاف ہوگئی کہ احمدی مسلمان غیراحمدیوںکے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ اس لئے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے کہ مسلمان کی نماز کافر کے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ جس کا انہوں نے خود اعتراف کیا۔ مگر واضح اور دوٹوک بات صرف اس لئے نہ کہی کہ اس طرح عوام الناس پر صاف ظاہر ہو جائے گا کہ احمدی مسلمان نہیں سمجھتے۔ جس سے عوام الناس کا یہ مطالبہ کہ جب قادیانی ہم کو مسلمان نہیں سمجھتے تو پھر ہم میں سے کیوں ہیں۔ اگر پاکستان میں احمدی مسلمان ہیں اور ہم کافر تو ان کو کافر اکثریت میں مسلم اقلیت قبول کرنی چاہئے اور اگر ہم مسلمان ہیں اور وہ کافر۔ جیسا کہ مسلمانان عالم کا متفقہ فیصلہ ہے تو پھر ان کو مسلم اکثریت میں کافر اقلیت قبول کرنی چاہئے۔ جیسا کہ قائداعظم کے جنازہ کے موقعہ پر اخبار نویسوں کے سوال کرنے پر سرظفر اﷲ خاں نے جواب دیا تھا کہ مجھے مسلمان حکومت کا کافر وزیر سمجھو یا کافر حکومت کا مسلمان وزیر۔
احمدی نوجوان سوچیں
کہ ان کی جماعت کے یہ اکابر انہیں کس قسم کی پیچیدہ صورتحال میں پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو ان کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں اور مولوی لوگ ہمیں خواہ مخواہ کافر قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ پورے عالم اسلام کے مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی خطے میں بستے ہوں۔ خواہ انہوں نے غلام احمد قادیانی کا نام بھی نہ سنا ہو۔ ان کو غیراحمدی، غیرمسلم، کافر، دائرہ اسلام سے خارج جہنمی، کتیوں کی اولاد، حرام کی اولاد، بیابانوں کے خنزیر قرار دیتے ہیں۔ خاندانی تعلقات کو ختم کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں کسی گروہ کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اس کے آگے گھڑے ہو کر کسی وقت نماز کی امامت بھی کراسکے۔ دوسری طرف ایسے ہی غیراحمدی کافروں کے درمیان رہنے پر مصر بھی ہیں۔ ان کے حقوق پر ڈاکہ بھی ڈالتے ہیں۔ کس قدر یہ ظالمانہ کاروائی ہے مرزائیوں کی اور کس قدر سادہ ہیں ہمارے حکمران جو یہ ظالمانہ مذاق دیکھ رہے ہیں۔ مرزائی احمدی نوجوان سوچیں کہ اس صورتحال کا کسی وقت کیا خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے۔