اعلانات کے بعد جماعت احمدیہ کے مبلغین اور مقررین دوٹوک بات کہنے سے کتراتے ہیں۔ جس کا حوالہ میں اوپر کلمتہ الفصل ص۱۲۵ اور آئینہ صداقت ص۳۵ کا حوالہ دے چکا ہوں۔ مزید خلیفۂ دوم فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح موعود نے غیراحمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریمﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام کیاگیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں۔ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی، دوسری دنیوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے ہیں۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔ اگرکہو کہ غیراحمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریمﷺ نے یہود تک کو سلام کا جواب دیا ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۶۹،۱۷۰)
قادیانیوں کا منافقانہ مؤقف
اس طرح جب یہ قادیانی حضرات دوٹوک بات نہیں کرتے اور کفر واسلام کے اس واضح امتیاز کو گول کر جاتے ہیں تو عوام الناس کو سمجھانے کے لئے علماء کرام ان باتوں کا سہارا لیتے ہیں کہ قادیانی ہم سے یوں دینی ودنیوی تعلقات منقطع کرنے کے بعد ہم میں سے کیسے ہوسکتے ہیں تو یہ حضرات بھی عوام الناس کو اس طلسم ہوشربا میں پھنسائے رکھنے کو اپنے لئے مفید سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا جھگڑا ان سے یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ وہ ہم سے رشتہ ناطہ کیوں نہیں کرتے۔ وہ ہمارے جنازے کیوں نہیں پڑھتے۔ بلکہ ان سے اختلاف ہے تو صرف یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو لازم ہے کہ دو میں سے ایک مسلمان اور دوسرا کافر ہے۔ آج جب کہ اس بات کو صاف صاف کہنے سے کتراتے ہیں تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہ بات ان کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ کوئی مسلمان بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ میں کافر تھا مسلمان ہورہا ہوں اور میرے مسلمان ہونے سے میرے والدین اور بھائی بہن سب کافر ہو