اور اس کے بعد خود خلیفہ ثانی نے مرزاغلام احمد قادیانی کے ۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۹۰۲ء تک جملہ اعلانات اور بیانات پر تو صاف پانی پھیر دیا اور واضح طور پر کہہ دیا کہ: ’’ہر وہ انسان جو مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتا خواہ اس نے مرزاقادیانی کا نام بھی نہ سنا ہو کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (آئینہ صداقت از مرزابشیرالدین محمود ص۳۵)
یہاں پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی نبی نے دعویٰ نبوت بتدریجاً نہیں کیا۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ اس سے پوچھا گیا ہو اور اس نے انکار کیا۔ بلکہ جب وحی نبوت اس پر نازل ہوتی ہے تو وہ دوٹوک دنیا کے سامنے کھڑے ہوکر اعلان فرماتا ہے کہ میں انسانوں میں خداتعالیٰ کی طرف سے منصب رسالت پر مامور کیاگیا ہوں۔ مجھے نبی مانا تو مسلمان کہلاؤ گے اور نجات پاؤ گے۔ بصورت دیگر اگر کفر کی حالت میں مروگے تو واصل جہنم ہو جاؤ گے۔
اب قادیانیوں کی ہیراپھیری
لیکن مرزاغلام احمد قادیانی کی شان ہی نرالی ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر انہی کی عبارت سے ثابت کیا ہے۔ لیکن ان واضح اعلانات کے بعد آج قادیانی جماعت کا کوئی مبلغ جب اپنی بات شروع کرتا ہے تو یوں گویا نہیں ہوتا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نبی ہے اقرار کرو گے تو مسلمان کہلاؤ گے اور انکار کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے اور دائرہ اسلام سے خارج۔ بلکہ حیات مسیح، تنظیم جماعت، نشرواشاعت کا حدود اربعہ اور چیدہ چیدہ الہامات کا اظہار کرے گا اور ان سے جب بھی یہ پوچھا جائے گا کہ بھئی مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور انکار کرنے والے کو کافر قرار دیا۔ پہلے اس معاملہ کو صاف کریں تو کنی کتراجائیں گے۔ بلکہ یہ کہیں گے کہ مسلمانوں نے یعنی علماء نے خواہ مخواہ مرزاقادیانی کو کافر کہا۔ جس کے جواب میں ہم بھی مسلمان کو کافر سمجھنے والے کو کافر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت بالکل اس کے خلاف ہے۔ ۱۹۰۲ء تک جب کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ نہ کیا تھا تو ان کو کسی نے کافر نہ کہا۔ دعویٰ کے بعد تو کفر لازم تھا ہی جیسا کہ مرزاقادیانی کے لئے ان کی نبوت کا انکار کفر تھا۔ ویسے ہی حضور اکرمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا کھلم کھلا کفر ہے۔ لیکن اس کو کیا کہئے کہ آج بھی خود مرزاقادیانی اور خلیفہ دوم کے واضح