نبوت کے منصب پر مامور فرماتا ہوں۔ اس کا اقرار راست روی اور سلامتی کی راہ ہے اور انکار نبوت کج روی اور گمراہی بمنزلہ کفر ہے اور صاف اور سیدھی بات تو یوں ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے ۱۹۰۲ء میں صاف صاف نبوت کا دعویٰ کیا اور ۱۸۸۰ء سے ۱۹۰۲ء تک مسلسل ۲۲سال اس سے انکار کیا۔ بلکہ پوری شدت سے تردید کی۔ جیسا کہ فرمایا: ’’میں اس بات پر محکم یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی خاتم الانبیائﷺ ہیں۔ آنجناب کے بعد اس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نیا ہو یا پرانا۔‘‘ (نشان آسمانی ص۳۰، خزائن ج۴ ص۳۹۰)
’’میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۳، خزائن ج۴ ص۳۱۳)
’’اے مسلمانوں کی ذریت کہلانے والو! دشمن قرآن نہ بنو اور خاتم النبیین کے بعد سلسلہ نبوت جاری نہ کرو۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۲۵، خزائن ج۴ ص۳۳۵)
اور پھر ۱۹۰۲ء میں صاف صاف اعلان فرمادیا کہ: ’’دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔‘‘ جیسا کہ براہین احمدیہ میں مرزاقادیانی نے فرمایا ہے: ’’میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں عیسیٰ ابن مریم ہوں، میں محمدﷺ ہوں۔‘‘
اور اس کی تشریح بھی خود غیرمبہم اور واضح الفاظ میں یوں کر دی۔ جس کا حوالہ کلمتہ الفصل میں (تتمہ حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱) کا دیتے ہوئے خلیفہ ثانی یوںبیان فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح موعود کی اس تحریر سے بہت سی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت صاحب کو اﷲتعالیٰ نے الہام کے ذریعہ اطلاع دی کہ تیرا انکار کرنے والا مسلمان نہیں اور نہ صرف یہ اطلاع دی بلکہ حکم دیا کہ اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھ۔ دوسرے یہ کہ حضرت صاحب نے عبدالحکیم خان کو جماعت سے اس واسطے خارج کیا کہ وہ غیراحمدیوں کو مسلمان کہتا تھا اور تیسرے یہ کہ مسیح موعود کے منکروں کو مسلمان کہنے کا عقیدہ خبیث عقیدہ ہے اور یہ کہ جو ایسا عقیدہ رکھے اس کے لئے رحمت الٰہی کا دروازہ بند ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۲۵)