اﷲ کبھی کبھار زنا کر لیتے ہیں۔ چونکہ حضرت مرزاصاحب ولی تھے۔ انہوں نے (یعنی مرزاقادیانی نے) کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا۔ ہمیں اعتراض مسیح موعود پر نہیں ۔ کیونکہ وہ کبھی کبھار زنا کیا کرتے تھے۔ ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ (بشیرالدین محمود) پر ہے۔ کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔‘‘
ان حوالوں سے مرزاقادیانی کا کردار سامنے آتا ہے۔ اس کے ہر قول وفعل میں تضاد تھا اور نبوت کی اوٹ میں نوجوان دوشیزاؤں کی عصمتوں کو اپنی شہوت کے تیروں سے چھلنی کرتے رہے۔ اس حقیقت کو پڑھ کر مرزائی خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ اٹھیں گے اور زخم خوردہ ناگن کی طرح تڑپیں گے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ اب بھی ان کا کچھ نہیں بگڑا۔ اگر گذشتہ گناہوں سے توبہ کر لیں اور راہ راست پر آجائیں اور اس بات کی گواہی دیں کہ مرزاقادیانی کو منصب نبوت پر فائز کرنا تو درکنار اس کے نام کے ساتھ لفظ نبوت بھی انبیاء کی توہین ہے۔
اب مرزاقادیانی کے بازاری اخلاق کے کچھ اور نمونے ملاحظہ فرمائیے کہ اﷲ کے برگزیدہ بندے اور پیارے نبی عیسیٰ علیہ السلام کو کن الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔
مرزاقادیانی (کشتی نوح ص۶۶، خزائن ج۱۹ ص۷۱) میں لکھتے ہیں: ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا۔ اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ شراب پیا کرتے تھے۔‘‘
مرزاقادیانی (نور القرآن حصہ دوم ص۷۳، خزائن ج۹ ص۴۴۸) میں رقمطراز ہیں: ’’آپ کے یسوع کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کب تک ان کے حال پر روئیں۔ کیا یہ مناسب تھا کہ وہ ایک زانیہ عورت کو یہ موقع دیتا کہ وہ عین جوانی اور حسن کی حالت میں ننگے سر اس سے مل کر بیٹھتی اور نہایت نازو نخرے سے اس کے پاؤں پر اپنے بال ملتی اور حرام کاری کے عطر سے اس کے سر پر مالش کرتی۔ اگر یسوع کا دل بدخیالات سے پاک ہوتا تو وہ کسبی عورت کو نزدیک آنے سے ضرور منع کرتا۔ مگر ایسے لوگ جن کو حرام کار عورتوں کے چھونے سے مزہ آتا ہے۔‘‘
مرزاقادیانی (ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) میں لکھتے ہیں: ’’تین دادیاں اور نانیاں آپ کی (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی) زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا ظہور ہوا۔‘‘
بدتر از بد وہ ہے جو ہووے بدزباں
بدزباں کا قلب ہے بیت الخلاء