تاریخ عالم اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ سلاطین عالم کا طریق بھی یہی ہے کہ ہر کس وناکس کو اپنا وزیر اور سفیر نہیں بناتے۔ وزارت اور سفارت کے لئے ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں۔ جو عقل اور فہم میں یگانۂ روزگار ہو۔ بادشاہ اور اس کی حکومت کا وفادار، اطاعت شعار، صادق اور راست باز ہو۔ جھوٹا اور مکار نہ ہو۔ جب شاہان دنیا کی مجازی اور فانی حکومت کی وزارت اور سفارت کے لئے اتنا بلند معیار ہے تو اس احکم الحاکمین اور شہنشاہ حقیقی کی نبوت اور خلافت کے لئے اس سے ہزار درجہ بڑھ کر اعلیٰ وارفع معیار ہوگا۔
آج کل نبوت ایک تماشہ بن چکی ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے نبوت کا دعویٰ کر دیتا ہے۔ مرزاقادیانی نے بھی نبوت کا دعویٰ ایک تماشہ سمجھ کر کیا۔ اب ہم مرزاقادیانی کو مختصر طور پر اس معیار پر پرکھتے ہیں۔ جو نبوت کے لئے ضروری ہے اور دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی اس پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔
۱…اخلاق وکردار
نبی کے لئے اخلاق وکردار کا مجسمہ ہونا ضروری ہے۔ تاکہ لوگ اس کی پیروی کر کے ایک اعلیٰ اخلاقی معاشرے کو جنم دیں۔ جو انسانیت کی فلاح کے لئے بہتر ثابت ہو۔ مرزاقادیانی صرف بداخلاق ہی نہ تھے۔ بلکہ آپ کا کردار انتہائی گرا ہوا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ آپ بڑھاپے کے عالم میں ایک سولہ سالہ دوشیزہ پر فریفتہ ہوکر بازاری ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ یہاں صرف چند واقعات نقل کرتا ہوں۔
(سیرت المہدی ج۳ ص۲۱۰، روایت نمبر۷۸۰) میں یہ واقعہ درج ہے کہ: ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل جو مرزاقادیانی کے بہت بڑے معتقد تھے، کو مرزاقادیانی کی بیوی نے بتایا کہ حضرت صاحب کی ایک خادمہ بانو نامی عورت ایک رات جب کہ سردی زوروں پر تھی۔ حضور (مرزاقادیانی)کودبا رہی تھی۔ چونکہ لحاف کے اوپر سے دبارہی تھی۔ اس لئے شبہ نہ ہوسکا کہ جس چیز کو وہ دبارہی تھی۔ مرزاقادیانی کی ٹانگیں نہیں بلکہ کوئی اور چیز ہے۔ مرزاصاحب نے کہا بانو آج بڑی سردی ہے۔ بانو نے کہا: ہاں جی تدے تے تہاڈیاں لتاں لکڑی وانگر ہویاں ہویاں نے۔‘‘
(الفضل) مرزائیوں کا روزنامہ ہے۔ اس میں ۳۱؍دسمبر ۱۹۳۸ء ص۶ میں ایک مرزائی کا خط شائع ہوا۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یعنی مرزاقادیانی) ولی اﷲ تھے اور ولی