برکف دست ساقئے وحدت
بادہ خوشگوارمے بینم
زینت شرع ورونق اسلام
ہر یکے را دوبارمے بینم
اس وقت ترک جو مسلمان ہیں۔ ان کی اگر یہ کیفیت ہو کہ ؎
ترک عیار مست مے نگرم
خصم او درخمارمے بینم
تو بالکل بجا اور درست ہے۔ مگر مرزاقادیانی نے ترکوں کو مست کی بجائے سست بنا کر اس امر سے حجت پکڑی ہے کہ چونکہ ترک اس وقت کمزور سے نظر آرہے ہیں اور پیش گوئی یہ کہہ رہی ہے کہ ظہور مہدی کے وقت وہ سست ہوںگے۔ اس لئے میں وہ مہدی ہوں جو یہ پیش گوئی کہتی ہے۔ کیا مرزاقادیانی یہ اندازہ نہیں لگا سکتے تھے اور انہیں یہ لکھتے وقت کچھ خیال نہ آیا کہ جب ساری دنیا کا ظہور مہدی کے بعد یہ حال ہونا چاہئے کہ ؎
ایں جہاں راچو مصرمے نگرم
عدل اورا حصارمے بینم
تو پھر ترک غریبوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ وہ ایسے زمانہ مین بھی سست ہی رہتے۔ بلکہ ایسے زمانہ مین آکر سست ہو جاتے۔ کیا محض اس لئے کہ ان کو مرزاقادیانی قبلہ کی ہستی کا علم نہیں ہوا تھا اور خاص کر اس لئے کہ وہ غریب مسلمان کہلاتے ہیں۔ اگر مہدی کی یہی برکت ہے کہ اسلامی سلطنتیں اس کے عہد میں کمزور وسست ہو جائیں تو ہم بغیر مہدی کے ہی اچھے ہیں۔ پھر دوسری بات یہ اور مرزاقادیانی کے بالغ نظر ہونے کی دلیل کہ جب ترک بھی سست ہو چکا تو پھر دوسرے مصرع میں ’’خصم او در خمارمے بینم‘‘ کے کیا معنی ہوسکتے تھے۔ مرزاقادیانی کی تشریح خمار میں لکھتے ہیں کہ فتح کا سرور جاتا رہے گا اور خمار رہ جائے گا۔ کاش کوئی ہمارا قابل مرزائی بھائی اس وقت مرزاقادیانی سے خمار کے معنی بھی پوچھنے کی جرأت کرتا۔ تمام نسخوں میں حتیٰ کہ مجمع الفصحاء میں یہ شعر یوں ہے ؎
ترک عیار مست مے نگرم
خصم او در خمار مے بینم