کے متعلق کی گئی تھی۔ پھر ان کے اس دعویٰ کا ابطال کرتے ہوئے مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ ان پر چسپاں کرنے والوں کی یہ صریح غلطی تھی۔ پیش گوئی دراصل میرے حق میں ہے۔ تاریخ بھی چودھویں صدی برآمد ہوتی ہے۔ نہ کہ تیرھویں اور باقی حالات بھی میرے حسب حال ہیں۔ نہ کہ اس سے پہلے کسی اور کے۔ ان امور سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس پیش گوئی کی کتنی اہمیت ہے اور مدعیوں نے اس سے کس کس طرح تمسک کیا ہے۔
جو معتبر شہادت کہ ہم نے اوپر لکھا ہے۔ مرزاقادیانی سے بزبان حال شاکی اور نالاں ہے اور ان کے صریح مخالف ہے۔ وہ یہی شہادت ہے۔ مرزاقادیانی نے اسے اپنے حق میں ۱۸۹۲ء میں شائع کیا تھا۔ اٹھائیس سال کے بعد پروفیسر بروؤن کی عنایت سے آج یہ شہادت طشت ازبام ہوئی ہے اور اپنے اصلی رنگ میں کھلے طور پر دنیا کے اور خاص کر مسلمانوں کے سامنے پیش ہوئی ہے۔ مسلمان، پروفیسر صاحب کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے۔ اگر وہ اسے اپنی کتاب میں درج کر کے شائع نہ کرتے تو باطل اپنے آپ کو حق کی شکل میں پیش کر ہی چکا تھا اور ہم بزدلوں میں سے کسی کو اس کے باقاعدہ رد کی جرأت نہ تھی۔ پروفیسر صاحب نے اپنی طرف سے محض ادبی دنیا پر یہ احسان کیا تھا۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ مسلمانوں کے ہاں کسی فرقہ کی بنیاد ہی ایک حد تک اس خشت پر قائم ہے۔ سو وہ اب دو شکریوں کے مستحق ہیں۔ ادبی لوگ بھی ان کے ممنون ہوں اور مذہبی بھی۔
ہندوستان میں یہ پیش گوئی جہاں تک ہمیں اس وقت تک معلوم ہوا ہے۔ پانچ چھ افراد سے زائد کے پاس موجود نہ تھی۔ ایک نسخہ لاہور میں تھا۔ ایک ندوۃ العلماء میں۔ ایک بہاولپور میں بتلایا جاتا ہے۔ ایک وہ ہوگا جس سے مرزاقادیانی نے نقل کیا اور اپنے حق میں شائع کیا۔ شاید ایک آدھ اور بھی بزرگ ہوں جن کے پاس قلمی نسخے ہوں۔
مرزاقادیانی نے تمام دنیا کو چیلنج دیتے ہوئے جب اس آسمانی شہادت کو بطور حجت کے پیش کیا تو اس کی تردید کسی طرف اسے نہ ہوئی۔ حالانکہ ایسے نسخے جب بھی موجود تھے۔ جو مرزاقادیانی کی نقل سے اختلاف رکھتے تھے اور جن سے کئی قسم کی قلعی کھل سکتی تھی۔ مگر اس وقت جو کسی کو تردید اور مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی تو اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جس جس صاحب کے پاس یہ نسخہ تھا وہ جانتا رہا کہ یہ میرے ہی پاس ہے اور کسی کے پاس نہیں۔ اگر میں نے شائع کیا اور مرزاقادیانی کے نسخے سے اختلاف ظاہر کیا تو وہ کہیں گے کہ دیکھو ہم تو مولوی اسماعیل شہید کی