کتاب سے اسے نقل کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے یہ سند ہے۔ تم بتاؤ کہاں سے اسے لے رہے ہو۔ تم ہمارے نسخے کو جھوٹا اور غلط کہتے ہو۔ تمہارا ہم سے زیادہ غلط ہے۔ کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کہ تمہارا صحیح ہے اور ہمارا غلط۔ اگر ایک کو بھی اس کے شائع کرنے کی ہمت پڑتی اور بات چھڑ جاتی تو اور بھی اس کی مدد کو پہنچتے۔ بات کھل جاتی۔ مگر ہر ایک اسی ڈر سے چپ رہا اور ضبط کئے رہا اور مرزاقادیانی بلاخوف تردید اپنی شہادت کو آسمانی شہادت کہہ گئے اور اپنی مہدویت کا سکہ جما گئے۔
اب جو پروفیسر برؤن کی کتاب آئی۔ بعض ادبی مذاق کے لوگوں میں اس کا چرچا ہوا تو کئی احباب کو یاد آگیا کہ مرزاقادیانی نے بھی اس قصیدہ کو اپنی مہدویت کا سنگ اساسی قرار دیا تھا اور اسے شائع کیا تھا۔ آؤ تو ان کے شائع کردہ قصیدہ اور اس کو ملائیں۔ کہاں تک مطابقت کھاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے معلوم ہوا کہ فرق زمین آسمان کا نہیں۔ بلکہ تحت الثریٰ اور فوق السماء کا ہے۔ شک یہ ہونے لگے کہ دال میں اور بھی کالا ہے۔ مرزاقادیانی نے اشعار کی جو ترتیب دی ہے۔ اس میں کئی طرح کے شکوک ہیں۔ بعض الفاظ وتراکیب اس طرح غلط اور الٹ پلٹ لکھے ہیں کہ معانی کو آسمان سے زمین کر دیا ہے۔ پھر جن اشعار کی اپنے حق میں تشریح کی ہے۔ ان میں تو اور بھی غضب ہے۔ کوئی بات نہیں چھوڑی جو ان کے مخالف ہوسکتی تھی اور اسی کو اپنے حق میں ثابت نہیں کیا۔ جن اشعار کی تشریح کر کے مضمون کا سلسلہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق تمام نظم میں سے کہیں کہیں سے اٹھا کر رکھ دئیے ہیں۔ جو صریحاً مخالف تھے۔ جن کی تاویل کی کوئی سبیل نہ تھی۔ ان کو چھواء تک نہیں۔ گویا میٹھے میٹھے (جن کو خود میٹھے بنانے کی کوشش کی گئی ہے) سب چن کر رکھ لئے ہیں اور کڑوے کڑوے سب چھوڑ دئیے ہیں۔ خیر اس مضمون کو مفصل طور پر ہم اگلے باب میں لکھیں گے۔
یہاں پر یہ جتا دینا ضروری ہے کہ مرزاقادیانی نے اس شہادت کو معتبر ترین شہادت سمجھا ہے اور شہادتوں کے سلسلہ میں اس کو پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ جہاں اس کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور مجذوب کے اقوال کو بھی بطور سند پیش کیا ہے۔ جس کی نسبت اس جگہ کچھ لکھنا بے محل ہے۔ ان دونوں پیش گوئیوں کو ایک جگہ شائع کر کے مرزاقادیانی نے ان کو حجت اﷲ سے تعبیر کیا ہے۔ کتاب کا ایک نام ’’نشان آسمانی‘‘ رکھا ہے اور دوسرا ’’شہادت الملہمین‘‘ سرورق پہلا جملہ یہ لکھا ہے کہ: ’’الحمدﷲ والمنتہ کہ رسالہ شافیہ کا فیہ جو مخالفوں پر حجت اﷲ اور موافقوں کے لئے موجب زیادت ایمان وعرفان ہے۔‘‘