قطع وبرید پر وہ تلے بیٹھے ہیں۔ وہ انہیں کی ایجاد ہے۔ نہ ہماری، مرزاقادیانی موصوف میں کوئی ایسی خوبی ہوگی۔ جسے دیکھ کر وہ باقی سب امت محمدیہ سے جدا ہوئے۔ مگر خدائے واحد شاہد ہے کہ ہمیں آج تک بجز دعوؤں اور بے جا تاویلوں اور تحریفوں کے کچھ نظر نہیں آیا۔ دل آزاری اپنے بھائیوں کی مطلوب نہیں۔ یہ لکھتے ہوئے اپنا دل دکھتا ہے۔ مگر مذہب کا معاملہ ہے۔ کتمان حقیقت یہاں گناہ ہے۔ مرزاقادیانی کی ان کے مریدوں کی آنکھوں میں اگر کوئی ظاہری خوبی ہے۔ بھی تو وہ یاد رکھیں کہ ہر جگہ ایسی ظاہری خوبی کے ساتھ کوئی نہ کوئی چھپی ہوئی بلا ایسی ضرور ہوگی۔ جو اگر اس خوبی پہ جاتے ہیں تو اس بلا میں بھی بری طرح گرفتار ہوتے ہیں ؎
دل خال تو دیدہ است وندیدہ خم زلفت
اے مرغ مرو درپئے ایں دانہ کہ دام است
یہ بہتان نہیں جو لکھ رہے ہیں۔ بے جا حملہ نہیں جو کر رہے ہیں۔ ایسا دعویٰ نہیں جس کے محض دوچار سو ثبوت ہوں۔ حقیقت ہے اور حقیقت ظاہرہ صداقت ہے اور صداقت باہرہ اسی حقیقت وصداقت کو کلی طور پر نہیں تو جزوی طور پر کھولنے کا ارادہ ہے کہ یہ طول طویل مبادیات لکھنے پڑے۔ مرزاقادیانی کے جو دعاوی قرآن وحدیث پر مبنی تھے۔ ان کا رد بارہا قرآن سے کیاگیا اور وہ غیرمعروف نہیں۔ آئے دن یہی جھگڑے ان کے مقلدین سے پیش رہتے ہیں۔ جو پردہ ہم اپنے بھائیوں یعنی مرزاقادیانی کے پیروں کی چشموں سے آج اٹھانا چاہتے ہیں وہ وہ ہے۔ جس کے اٹھتے ہی حقیقت کا رخ نگارین وہ خود دیکھ لیں گے۔ جو شہادت نہایت معتبر وغیر متزلزل سمجھ کر مرزاقادیانی اپنی مہدویت کے ثبوت میں ہمارے بھائیوں کو دئیے گئے ہیں۔ وہی شہادت اپنے اصلی رنگ میں ظاہر ہوگی اور پکارے گی کہ میں کتنی مبدل ومحرف تھی۔ جس صورت میں کہ جناب مرزاقادیانی نے مجھے پیش کیا۔ میرے معنی کیا تھے اور کیا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کئے گئے۔ مجھے نہ صرف یہ شکایت ہے کہ مرزاقادیانی وہ مہدی نہ تھے۔ جس مہدی کے لئے میں کہتا ہوں اور مجھے بے محل پیش کیا۔ بلکہ یہ کہ میرے حق میں مرزاقادیانی اپنے علم وفضل سے دور چلے گئے۔ میں ایک منظوم شہادت تھی۔ مجھ کو مذاق ادب کی محک پر نہ پرکھا۔ حالانکہ ان کے حواریوں کا دعوی ہے کہ آپ عروض ومصرع سازی میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ قرآن وحدیث کی طرح میری طرف بھی چشم تحقیق کو ہر گز ملتفت نہ ہونے دیا۔ مجھے یہ شک ہے شک نہیں۔ گمان غالب ہے کہ میری شکل کو دانستہ بگاڑا گیا ہے۔ تاکہ میں کسی کی ہم شکل بن جاؤں۔ میں مدتوں سے جو ہرزنگ زدہ تھی۔