کو سب لوگ جانتے ہیں اور پھر آخری شخص تو وہ ہے جسے رحلت فرمائے ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں اور جس کے کارناموں کے چرچے اپنی مدہم رفتار سے ابھی جاری ہیں۔ ہمارا اشارہ صاف ہے اور جناب مرزاغلام احمد قادیانی کی طرف ہے۔ انہوں نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔ مہدی آخرالزمان بنے۔ مسیح موعود اپنے آپکو کہا۔ (یہ جرأت ان سے قبل آج تک کسی اور کو نہ ہوئی تھی) ہندوؤں کے لئے کرشن بنے اور ان سب پر طرۂ کہ مرسل ونبی ہونے کا پیغام بھی دنیا کو دیا۔ ان سب دعوؤں کی تائید ہزارہا الہاموں سے کی۔ جن میں سینکڑوں وعدے اور سینکڑوں وعیدیں تھیں۔ تحدیاں کیں۔ پیش گوئیوں کو رواج دیا۔ نئی نئی باتیں بنائیں۔ بنی ہوئی سینکڑوں بگاڑ کی کوشش کی۔ ماشاء اﷲ علم وفضل کے مالک تھے۔ مناظرے کے میدانوں میں بھی قدم مارے۔ ہارے یا جیتے یہ قسمت کے کھیل تھے۔
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
لمبی تقریروں اور تحریروں سے ایک دو نہیں ہزاروں سادہ لوح متأثر ہوئے۔ مجذوبانہ بڑوں کے پھندوں میں کئی عقیدت شعار پھنسے۔ جہاں محکمات کو متشابہات کر دکھایا۔ وہاں خود ایسی متشابہات سے ارادت مندوں کو مسحور کیا کہ وہ خصوصیات احمدیہ ومرموزات مہدویہ کے عقیدوں سے تاقیامت کسی اور طرف آنکھ نہ پھیریں۔ پیر پرستوں کے لئے اکبر اکابر المشائخ ظاہر ہوئے۔ انتظار مہدی کے مریضوں کے لئے نہ صرف مہدی بلکہ مسیحا بنے۔ سائنس دانوں کی خاطر معجزات کو نئے نئے رنگ دئیے۔ معجزہ کے طلبگاروں کے لئے پیش گوئیوں کے دفتر لکھے۔ علماء کی تواضع تفسیر واجتہاد سے کی۔ گویا ہر محفل کے صدر بنے اور ہر رنگ پر اپنا رنگ غالب کرنے کی سعی کی۔ جس خیال کا کوئی دیکھا اسی خیال کے پردے میں اپنا خیال چھپا کر اس کے پیش کر دیا۔ پھر کون تھا جو اس کرشمہ کا شہید نہ ہوتا اور اس دعوت کو قبول نہ کرتا ؎
بیک کرشمہ کہ نرگس بخود فروشی کرد
فریب چشم تو صد فتنہ درجہاں انداخت
جو بچ گئے اپنی قسمت کو دعائیں دیں اور خدا بخشندہ کا شکر ادا کریں۔
کیں سعادت بزور بازو نیست
متبعین کی تعداد ابھی لاکھوں میں ہے۔ ہمارے بھائی ہیں۔ دل نہیں چاہتا جو ایک دفعہ ایک رشتہ میں ہمارے ساتھ منسلک ہو چکے تھے۔ پھر کبھی ہم سے الگ ہوتے۔ مگر کیا کریں جس قطع