’’وعن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲﷺ اذا رایتم الرایات السود قد جاء ت من قبل خراسان فاتوھا فان فیہا خلیفۃ المہدی رواہ احمد والبیہقی‘‘ {حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب تم سیاہ جھنڈے خراسان کی طرف سے آتے دیکھو تو ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ کیونکہ اس میں اﷲ کا خلیفہ ہوگا۔}
گویا وہ علم بردار مساوات وحریت یعنی حضرت مہدی علیہ السلام جن جن آثار وقرائن سے آشکار ہونے والا ہے۔ وہ سب اظہر من الشمس کر دئیے ہیں۔ ان تصریحات کے مقابلہ میں تاویلیں لا یعنی ومہمل ہیں۔ اپنے منہ سے ہر شخص کو باتیں بنانے کا اختیار ہے۔
مگر جہاں مجدد کا لقب اتنا ہوس انگیز ثابت ہوا کہ ہزاروں مدعیوں نے اسے اختیار کیا۔ کیسے ہوسکتا تھا کہ بڑے دعویٰ کے مدعی مہدی بن کر نہ رہتے۔۔ چنانچہ اکثر نے دعویٰ کئے اور دعویٰ کے وقت ہمیشہ کہا کہ یہی زمانہ وہ آخری ابتلاء کا زمانہ ہے۔ بے دینی کا رواج اس سے بڑھ کر نہ کبھی آگے ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ ہمیں اس تجدید پر مامور کیاگیا ہے اور بجز ہمارے دعوے کے تسلیم کئے نجات اخروی محال قطعی ہے۔ جمہور ملت نے نہ ایسے مدعی کو آج تک کسی وقعت کی نظر سے دیکھا اور نہ ہی آج تک کوئی حق بجانب ثابت ہوا۔ مجددین جو حقیقت میں مجددین تھے۔ وہ خود آشکار ہوکر رہے۔ مدعیان تجدید مرمٹ گئے۔ مگر مہدویت کا سکہ آج تک بالکل کسی کا نہ جم سکا۔
مشتے نمونہ از خروارے ہم ذیل میں چند ایسے شخصوں کے نام دے دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ جنہوں نے مہدویت کے دعویٰ کئے یا جن کے مریدوں نے کچھ عرصہ انہیں مہدی بنائے رکھا۔ مہدویت چھوڑ ان میں سے بعض نبوت کے مدعی بھی تھے۔
اسود عنسی، زکریا بن امام محمد باقر، مغیرہ، ابن صیاد، طلیحہ بن خویلد، عبداﷲ بن معاویہ، احمد بن محمد بن حنفیہ، سلیمان قرمطی، یحییٰ، عیسیٰ بن مہرویہ، ابوجعفر، محمد بن اسمعیل، عبداﷲ بن احمد فاطمی، محمد نفس زکیہ، محمد بن قاسم، قاسم بن مرہ، عباس محمد بن تومرت، استاذ سیس، عطا، عثمان بن نہیک، حسن عسکری، محمد بن حسن عسکری، محمد مہدی عباسی، احمد بن کیال، شیخ محمد خراسانی، محمد احمد سوڈانی، پوشیا، وامیہ، بہبود، ابراہیم بزلہ، علی محمد باب، محمد مسجوانی۔
قطع نظر ان سے خود ہندوستان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ سید محمد جونپوری وغیرہ