مگر بفحوائے الاشیاء تعرف باضد ادھا۔ جہاں سچے برحق اور غیرمدعی مجددین (مثلاً امام غزالیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت مجدد الف ثانیؒ وغیرہم) کو ظاہر ہونا تھا۔ وہاں کاذبوں اور مدعیوں کو بھی موقعہ تھا کہ حدیث پیغمبر کو حجت پکڑتے اور اس سے تمسک کر کے اپنی ڈینگ مارتے۔ ایک دفعہ نہیں کئی بار ہوچکا ہے اور قریباً ہر صدی کے گذرنے پر ہوا ہے کہ اصلی مجدد نے تو چپ چاپ خاموشی سے اپنا کام شروع کیا۔ بغیر اس احساس کے کہ وہ مجدد ہے بھی یا نہیں اور ادھر ایک دو بلکہ اس سے زیادہ مدعیوں نے اپنے مکروحیلہ کے جال پھیلا، مناظروں اور پیش گوئیوں کے اعلان کر کے اپنے حواریوں کی جماعتیں پیدا کر لیں۔ جو انہیں اس صدی کا مجدد کہیں اور ان کے نام کا ہر طرف ڈنکا بجائیں۔ اکثر نے تو اچھی خاصی لاکھوں کی تعداد میں گروہ بھی پیدا کئے ہیں۔ جو ان کے بعد بھی اس زہر کو پھیلانے میں کچھ عرصہ کوشاں رہے۔ مگر آخر فنا ہوگئے۔ ’’ان الباطل کان زھوقا‘‘
اس تمہیدی مبحث کو چھوڑ کر اپنے اصل مدعا کو پکڑتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جیسا اوپر بیان ہوچکا ملت اسلامیہ اپنے تمام نشیب وفراز دیکھتی۔ آخر اس نکتے پر پہنچنے والی ہے۔ جہاں یہ تمام اقوام ومذاہب کو اپنے اندر گھیر لے گی۔ مگر چونکہ وہ اس کے انتہائی فراز کا دور ہوگا۔ اس لئے اس سے پہلے اس کو اپنا انتہائی نشیب بھی دیکھنا ہوگا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول مقبولﷺ نے اپنی احادیث میں جہاں مجددین اسلام کا ذکر فرمایا۔ وہاں یہ بھی بطور پیش گوئی کے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت ان ان حوادث وواقعات کی بناء پر اپنے انتہائی انحطاط کو پہنچ چکے گی۔ یا یوں کہو کہ فتنہ آخرالزمان کو دیکھ چکے گی تو اس کے بعد آخری مگر سب سے بڑا اورافضل ترین مجدد جو مہدی کے لقب سے ملقب ہوگا، رونما ہوگا اور آخری مقصد تبلیغ کو تکمیل دے گا۔
الفاظ نشیب وفراز کو مدنظر رکھتے ہوئے پیغمبر خداﷺ کے حسب ذیل ارشادات مطالعہ کرنے دلچسپی سے خالی نہ ہوںگے۔
’’عن عبداﷲ ابن مسعودؓ قال قال رسول اﷲﷺ لا تذہب الدنیا حتیٰ یملک العرب رجل من اہل بیتی یواطی اسمہ اسمی رواہ الترمذی وابوداؤد، وفی روایۃ لہ قال لو لم یبق من الدنیا الا یوم لطول اﷲ تعالیٰ ذالک الیوم حتیٰ یبعث فیہ رجلا منی اومن اہل بیتی یواطیٔ اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی یملاء الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت ظلماً