اس تمام عبارت سے بتانا یہ مقصود تھا کہ اسلام نے ابھی تک اپنا کمال نہیں دیکھا۔ ابھی تک راہ میں ہے۔ منزل پر نہیں پہنچا۔ ’’ولکل بناء مستقر‘‘ کمال اس کا جب ہوگا۔ جب تمام نوع انسان اس کے اندر داخل ہوچکیں گی اور لسان وقلب سے اس کی برکات کی مدح سرا ہوگی۔ ابھی تک جو نشیب وفراز دنیا میں ہورہے ہیں یا یوں کہو کہ اسلام دیکھ رہا ہے۔ یہ سب اس کے عروج کی زنجیر کی ضروری کڑیاں ہیں وہ منزلیں ہیں جن سے اس کو لابد گزرنا ہے۔ ہزار کامیابیاں ناکامیوں کی راہیں ہیں اور لاکھوں ٹھوکریں ثبات قدم کا ذریعہ۔
پیغمبر اسلام علیہ التحیۃ واسلام دنیا میں اپنے زمانہ قیام کے اندر اسلام کے عالمگیر ومکمل اصولوں کی تبلیغ کو حد انتہاء تک پہنچا گئے۔ کوئی ملک نہ رہا کوئی بستی نہ رہی۔ جہاں آوازہ حق پہنچ کر نہ رہا۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک! اس ’’فرستادہ خاص پروردگار‘‘ اور ’’رسانندہ حجت استوار‘‘ پر یہی فرض تھا اور یہی اس نے کیا۔
خلائق راز دعوت جام درداد
بہر کشور صلائے عام ورداد
اس پر یہ فرض نہ تھا کہ دوران حیات ہی میں تمام مخلوق کو مومن بناجاتا۔ اس کا جی چاہتا ہو اور وہ اندر ہی اندر کڑھتا ہو کہ کیوں اکثر حصہ میری نوع کا بوجہ نادانی وجہالت اصلیت وحقیقت کا قابل نہیں ہوتا۔ مگر یہ اس کے بس نہ تھی۔ فطرتاً رؤف ورحیم تھا۔ مگر مشیت کے مقتضیٰ سے بھی مجبور تھا۔ اس کے سینہ میں اس تمنا کے جو سیلاب اٹھتے تھے۔ ان کا اندازہ حکیم مطلق کے اس فرمان سے ہوسکتا ہے اور پھر ایک بار نہیں کئی دفعہ اس مضمون کو دہرایا گیا۔ ’’ولو شاء ربک لاٰ من من فی الارض کلہم جمیعاً افانت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مؤمنین‘‘
آخری حجت اپنی تکمیل کو پہنچ چکی۔ مگر قبول حجت کا زمانہ ابھی تا قیام قیامت جاری ہے۔ یہ تبلیغ توحید کی امانت اپنے متبعین یعنی ملت اسلامیہ کو سپرد کرتے وقت اس ختم المرسلین نے وہ رموز واسرار بھی ایک خاص حد تک ان پر افشاء کر دئیے۔ جو ابھی آغوش مستقبل میں مستورومحبوب تھے۔ بطور پیش گوئیوں کے وہ تمام اہم ترین انقلابات جو اس ملت کی زندگی میں واقع ہونے والے تھے۔ سب کے سب کہہ دئیے۔ جہاں یہ پیش گوئیاں اپنے پورے ہونے کے وقت پیغمبرؐ کی صداقت ودیانت پر حجت تھیں۔ وہاں ملت کو بطور حفظ ماتقدم احتیاط وحزم کے اعلان بھی تھے۔
ملت کا حلقہ چونکہ اتنا وسیع ہونا مطلوب تھا کہ اس سے اوسع کبھی ہو نہ سکے اور پھر زندگی