اسی طرح یروشلم میں برطانوی داخلے پر تقریبات جشن ومسرت سنائی گئیں اور سقوط ترکی پر انگریزوں کا یہ ایجنٹ فرقہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ اس سلسلے میں منیر انکوائری رپورٹ کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے ہاتھوں ترکی کی شکست اور پھر ۱۹۱۸ء میں بغداد کی پسپائی پر قادیان میں جشن مسرت منائے جانے پر مسلمانوں میں شدید غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور احمدی انگریزوں کے پٹھو سمجھے جانے لگے۔‘‘ (تحقیقاتی رپورٹ ص۲۰۹)
قادیانیوں کی قابل نفرت اور مذموم کاروائیاں برصغیر ہی تک محدود نہ رہیں۔ بلکہ تمام دنیائے اسلام ان کی تخریبی کاروائیوں کی آماجگاہ بن گئی۔ قادیانی مبلغ تمام اسلامی ممالک میں روانہ کئے جاتے۔ جو تبلیغ اسلام کی آڑ میں برطانوی آقاؤں کے لئے جاسوسی کے فرائض سرانجام دیتے۔
میر محمد سعید حیدر آبادی پہلا قادیانی مبلغ تھا۔ جس کے ناپاک قدم سرزمین عرب میں ۱۹۲۱ء میں پہنچے۔ اس پر جاسوسی کا شک گذرا تو مقامی حکومت کو اس کی رہائش گاہ کی تلاشی لینا پڑی۔ جب اس مرتد ٹولے کے کارندوں نے عراق کا رخ کیا اور وہاں اپنا جال پھیلایاتو عراقی حکومت کو جلد ہی ان کے ناپاک عزائم کا پتہ چل گیا۔ لہٰذا انہیں عراق سے فوری طور پر نکلنے کا حکم دے دیا گیا۔ نیز عراقی پارلیمنٹ نے ۱۹۲۴ء میں قادیانیوں کی تبلیغ پر پابندی عائد کر دی۔ شام میں قادیانی مبلغ جلال الدین شمس کو ۱۹۲۷ء میں حصول آزادی کے جیالے سپاہیوں نے انہیں وجوہات کے باعث واصل جہنم کردیا۔ مصر میں بھی ان سے یہی سلوک کیاگیا اور انہیں ملک سے باہر نکال دیا گیا۔
مرزاقادیانی کی زندگی ہی میں افغانستان میں دو قادیانیوں کو پتھر مارمار کر ہلاک کر دیا گیا۔ نیز ۱۹۲۴ء میں نعمت اﷲ قادیانی پر جاسوسی اور ارتداد کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ الزامات ثابت ہونے پر اسے سنگ سار کیاگیا۔ ملا عبدالحلیم اور ملا نور علی کے خلاف بھی ان ہی الزامات کے سبب عدالتی کاروائی کی گئی۔
شام کے مفتی اعظم نے بھی ایک فتویٰ کے ذریعے قادیانیوں کو ملحد اور کافر قرار دے دیا۔ نیز ان کی مذمووم وفاسدانہ اور خفیہ کاروائیوں کے پیش نظر شامی حکومت نے ۱۹۵۷ء میں قادیانیت کی تبلیغ پر پابندی عائد کر دی۔ متعدد مسلمان ممالک جو اس تحریک کو اپنے اصل رنگ میں دیکھ چکے ہیں اور اس کی سازشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس کی تشہیر پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔ مثلاً مصر، ترکی، افغانستان، شام، حجاز، عراق، اردن میں کسی قادیانی مشن کا وجود نہیں پایا جاتا۔