عرب ممالک میں قادیانیوں کے ہتھکنڈے ناکام ہوگئے تو انہوں نے افریقی ممالک نائجیریا، گھانا، کینیا، یوگنڈا، موریطس اور جنوبی افریقہ میں اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لئے وسیع جال پھیلا دیا۔ فلسطین میں تو وہ ۱۹۲۸ء ہی میں اپنا مرکز قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہاں سے انہوں نے عربی زبان میں ’’البشریٰ‘‘ نامی میگزین کی اشاعت کا آغاز کیا اور اسے عرب دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجنے کا انتظام کیا۔
جب صیہونی تحریک مسلم فلسطین کے وسط میں صیہونی ریاست بنانے کے لئے مصروف جدوجہد تھی اور مسلم دنیا اس کی مخالفت پر اپنا پورا زور صرف کر رہی تھی۔ قادیانی خلیفہ نے ۱۹۲۴ء میں ایک اعلان جاری کیا۔ ’’قرآنی پیش گوئیوں اور مسیح موعود کے الہامات سے یہ واضح ہے کہ یہودی اس ملک (فلسطین) میں آباد ہونے میں یقینا کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘
(قادیانی میگزین الفضل مورخہ ۱۹؍فروری ۱۹۳۴ئ) قادیانیوں کے اس اعلان نے کہ اصل مسجد الاقصیٰ فلسطین میں نہیں بلکہ قادیان میں واقع ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کشمیر میں مدفون ہیں اور ان کے دوبارہ دنیا میں نزول کا عقیدہ محض افسانہ ہے۔ صیہونیت کو خوب فائدہ پہنچایا۔ اس قسم کے اعلانات سے انہوں نے مذہب سے ناآشنا ان پڑھ مسلمانوں کے ذہنوں کو انتشار والجھنوں میں مبتلا کر دیا۔ بلکہ جب اسرائیل ریاست کے وجود کا اسلامی دنیا کے عین قلب میں خنجر گھونپ دیا گیا۔
اور تمام مسلمانوں نے انفرادی اور قومی سطح پر استعماریت کی اس ذریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو بھی قادیانیوں نے اپنی سرگرمیاں وہاں جاری رکھیں۔ پاکستانیوں پر اسرائیل کے دروازے ہمیشہ بند رہے۔ لیکن قادیانیوں کی آمدورفت وہاں جاری رہی اور آج بھی ان کا مشن وہاں کی حکومت کی سرپرستی میں مسلم دنیا کے خلاف تخریبی کاروائیوں میں سرگرم عمل ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کے پوتے مرزامبارک احمد کی تالیف "OUR FOREIGN MISSIONS" کے صفحہ۷۹ کے ایک اقتباس کا ترجمہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے: ’’اسرائیل میں احمدیہ مشن حیفہ کے مقام پر ماؤنٹ کرمال میں واقع ہے۔ وہاں ہماری ایک مسجد، ایک مشن ہاؤس، ایک لائبریری، ایک بک ڈپو اور ایک سکول ہے۔ مشن ایک ماہانہ میگزین ’’البشریٰ‘‘ کی اشاعت کرتا ہے۔ جو عربی جاننے والے تیس ممالک میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‘‘
مندرجہ بالا حقائق کے مطالعہ سے ناظرین پر یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ مذہبی اور سیاسی