ستائشہ الفاظ ہیں۔ جو ایک کافر اور دشمن اسلام حکمران کی تعریف میں الاپے گئے ہیں۔ نیز ہر شخص جو اسے پڑھتا ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قادیانیت کا نشو وارتقاء برطانوی استعمار کی حمایت ومعاونت کا مرہون منت ہے۔ اگر اسے فرنگی آقاؤں کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو اس کا پنپنا ناممکن تھا۔ بلکہ ابتداء ہی میں از خود اس کا خاتمہ ہوجاتا۔ درحقیقت اس تمام منظر کے پس پردہ برطانوی نو آبادیاتی پالیسی کارفرما تھی۔ جو خالصتاً سیاسی وجوہات کے باعث اسلام کو اس کی قوت حیات سے محروم کرنے کے در پے تھی۔ لہٰذا قادیانیوں کی آواز ہز ماسٹرز وائس ہے۔ یہ طائفہ ہر لحاظ سے اپنے آقاؤں کی توقعات پر پورا اترا اور اس نے استعماریت کی مرادیں برلانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جب کبھی مسلمانوں کو کوئی قومی یا بین الاقوامی مسئلہ پیش آیا۔ قادیانی اپنے مخصوص ذہن اور نظریات کو چھپائے بغیر نہ رہ سکے۔ مثلاً ۱۹۱۳ء میں حکومت نے کانپور میں کسی سڑک کو سیدھا کرنے کے لئے اس پر واقع مسجد کا ایک حصہ گرادیا۔ مسلمانان ہند نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ عوامی احتجاج نے نازک صورت اختیار کر لی۔ بہت سے مسلمانوں نے مسجد کی حرمت پر اپنی جانیں نثار کر دیں۔ لیکن قادیانی رہنماؤں نے ان شہیدان اسلام کو مقتول باغی کے لقب سے نواز کر اپنے خداوندان نعمت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ۱۹۱۸ء میں مسلمان ترکی سے متعلق برطانیہ کے مذموم عزائم کے باعث مضطرب تھے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے پیروکاروں نے قادیان میں برطانیہ کی فتح کی خوشی میں چراغاں کیا۔ مختلف مقامات پر جلسے کر کے اپنے محسنوں کی کامیابی پر تقریبات جشن منا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی۔ غلامان رسول عربیﷺ کے خلاف استعمال کئے جانے والے فوجی اسلحہ کی خرید کے لئے چندہ اکٹھا کر کے مسلم دشمنی کی علمبردار کافر حکومت کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا اور اس طرح مسلم کشی میں عملی طور پر حصہ لیا۔
جب عراقی سرزمین برطانوی فوجی دستوں کے ناپاک قدموں تلے روندی گئی تو مرزاغلام احمد قادیانی کے بیٹے نے ایک بہت بڑے اجتماع کا انتظام کیا اور تقاریر کے ذریعے اپنی مسرت ومشادمانی کا اظہار کیا۔ (الفضل قادیان ج۶ نمبر۴۱ ص۱،۲، مورخہ ۳؍دسمبر ۱۹۱۸ئ)
قادیانیوں کے خلفیہ ثانی مرزامحمود احمد کا مندرجہ ذیل بیان بھی قابل غور ہے: ’’عراق کے فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہایا اور میری تحریک پر سینکڑوں آدمی بھرتی ہوکر چلے گئے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۲۳ئ)