مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کر کے ان کی صفوں میں افتراق وانتشار پھیلانے کی ناپاک جسارت کی۔ جس کا اسے خود اعتراف ہے۔
’’اور گورنمنٹ برطانیہ میری تلوار ہے۔ جس کے مقابلہ میں ان علماء کی کچھ پیش نہیں جاتی۔‘‘
’’ہم احمدی اس فتح پر خوش کیوں نہ ہوں؟ ہم اس تلوار کو عراق، عرب، شام اور ہر جگہ چمکتے ہوئے فتح یاب دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ (الفضل ج۶ نمبر۴۲ ص۹، مورخہ ۷؍دسمبر ۱۹۱۸ئ)
ایک اور مقام پر وہ اعتراف کرتا ہے: ’’بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکہ میں گذارہ ہوسکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں۔ تو پھر کسی طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۳۱۲)
’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں۔ نہ مدینہ میں نہ روم میں نہ شام میں نہ ایران میں نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۶۹، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰)
مرزاقادیانی اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے حقائق پر سے مزید پردہ اٹھاتا ہے: ’’یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جاؤ تو پھر تمہارا ٹھکانا کہاں ہے؟ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لئے دانت پیس رہی ہے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔ سو تم اس خداداد نعمت کی قدر کرو۔ تم یقینا سمجھ لو کہ خداتعالیٰ نے سلطنت انگریزی تمہاری بھلائی کے لئے ہی اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس پر کوئی آفت آئے تو آفت تمہیں بھی نابود کر دے گی… ذرا کسی اور سلطنت کے زیرسایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ سنو انگریزی سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل وجان سے اس سپر کی قدر کرو اور ہمارے مخالف جو مسلمان ہیں۔ ہزارہا درجہ انگریز ان سے بہتر ہیں۔ کیونکہ وہ تمہیں واجب القتل نہیں سمجھتے۔ وہ تمہیں بے عزت کرنا نہیں چاہتے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۳، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۴)
یہ بیان اپنے اختصار کے باوجود کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ یہ ایک متنبی کے فاسدانہ