قادیانی ٹولہ اسلام کے اعتقادی ڈھانچے کو تہ وبالا کرنے کے لئے صرف ایک نئے فرقے کی حیثیت سے تخلیق نہیں کیاگیا تھا۔ بلکہ جیسا کہ واضح کیاگیا ہے۔ یہ ایک زیر زمین خفیہ سازش تھی۔ جس نے برطانوی سرپرستی میں جنم لیا تھا۔
دنیا جانتی ہے کہ جہاد کی مخالفت کرنا گویا اسلام کی شہ رگ پر چھری چلانے کے مترادف ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا اس اہم دینی فریضہ کو قطعی طور پر حرام قرار دینا ہی اس تحریک کے ناپاک عزائم کی چہرہ کشائی کرنے کے لئے کافی ہے۔ مزید برآں اس کاسہ لیس متنبی نے اپنی تمام زندگی برطانوی حکومت کی حاشیہ برداری، خیرخواہی وغم گساری میں گذار دی اور اپنے اس جنون میں اس حقیقت کو بھی فاش کر دیا کہ اس کا ناپاک وجود حکومت کی سرپرستی اور تحفظ کا مرہون منت ہے۔ جیسا کہ اس نے خود اپنی تصنیف (تحفہ قیصریہ ص۳۱، خزائن ج۱۲ ص۲۸۳) میں اس کا واضح الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔
’’میں اﷲتعالیٰ بزرگ وبرتر کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایۂ رحمت کے نیچے جگہ دی۔ جس کے زیر سایہ میں آزادی سے اپنا کام نصیحت اور واعظ ادا کر رہا ہوں۔ اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے۔ مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے۔ کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصر ہند کی حکومت کے سایہ کے نیچے انجام پذیر ہوسکتے ہیں۔ کسی اور حکومت کے زیرنہیں ہوسکے۔ اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔‘‘
انگریزوں کا ساختہ وپروردہ نبی مرزاقادیانی اپنی محسن وسرپرست حکومت کی چاپلوسی کرنے اور ممنون ہونے میں بالکل حق بجانب تھا۔ جس نے اس پودے کو لگایا اور پھر اس کو حزم واحتیاط سے سینچنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہاں تک کہ اس نے ایک تنومند شجر کی صورت اختیار کر لی۔ مرزا، بہائی اور بابی دونوں ملحدانہ تحریکوں کے حشر سے باخبر تھا۔ جو اسلامی ممالک ایران اور ترکی میں بری طرح کچل دی گئی تھیں۔ بہاء اﷲ ۱۸۹۳ء میں جہنم رسید ہوا تھا۔ مرزاقادیانی نے صرف ایک سال پیشتر نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ لہٰذا بہائیوں کے ڈرامے کا آخری منظر بھی اس کے پیش نظر تھا۔ اسے کامل یقین تھا کہ اس کے ملحدانہ اعتقادات کا بھی یہی حشر ہوگا۔ اگر اس نے یہ بیہودہ دعویٰ کسی اسلامی مملکت میں کیا ہوتا تو ابتداء ہی میں اس فتنے کا گلا گھونٹ دیا جاتا۔ یہ تو برطانوی حکومت کی نظر کرم کا نتیجہ تھا کہ مرزاقادیانی نے اپنے آقاؤں کی تلواروں کے سایے میں پناہ لیتے ہوئے