جسارت نہیں کر سکا۔ ایرانیوں میں بھی بہائیوں (بہاء اﷲ ایرانی کی امت ) نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول کریمﷺ کی شخصیت کا مرہون منت ہے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۳۶)
لہٰذا فطری طور پر مسلمان ابتداء ہی سے اس نئے مسلک کے ساتھ برسرپیکاررہے اور قادیانی ٹولے کو سرکاری طور پر امت اسلامیہ سے علیحدہ فرقہ قرار دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس مطالبے کے حق میں بڑی ٹھوس دلائل پیش کی ہیں۔ جو ہدیہ ناظرین کی جاتی ہیں: ’’ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بانی تحریک نے ملت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے اور اپنے مقلدین کو ملت اسلامیہ سے میل جول رکھنے سے اجتناب کا حکم دیا تھا۔ علاوہ بریں ان کا بنیادی اصولوں سے انکار اپنی جماعت کا نیا نام (احمدی) مسلمانوں سے بائیکاٹ اور ان سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ دنیائے اسلام کافر ہے۔ یہ تمام امور قادیانیوں کی علیحدگی پر دال ہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ اسلام سے اس سے کہیں دور ہیں۔ جتنے سکھ ہندوؤں سے، کیونکہ سکھ ہندوؤں سے باہمی شادیاں کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہندو مندروں میں پوجا نہیںکرتے۔‘‘
(حرف اقبال ص۱۳۷)
اس امر کو سمجھنے کے لئے کسی خاص ذہانت یا غور وفکر کی ضرورت نہیں ہے کہ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ پھر وہ سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رہنے کے لئے کیوں مضطرب ہیں؟
درحقیقت مسلمان علماء کرام اور سیاسی رہنماؤں نے اسلام کے خلاف قادیانی طائفے کی سرکشی کو ابتداء ہی میں بھانپ لیا تھا۔ اگرچہ بانی مسلک اور اس کے معاونین نے کھلم کھلا علم بغاوت بلند کرنے کی بجائے خفیہ سازشی ہتھکنڈوں کا طریق کار اپنایا تھا۔ علامہ اقبالؒ کے خیالات پھر ہدیہ ناظرین کئے جاتے ہیں: ’’وہ اجتماعی اور سیاسی تنظیم جسے اسلام کہتے ہیں۔ مکمل اور ابدی ہے۔ محمدﷺ کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو۔ جو شخص ایسے الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۴۹،۱۵۰)