’’حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے اور ہمارا اور۔ ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور۔ ہمارا حج اور ہے۔ ان کا حج اور۔ اس طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۵ نمبر۱۵ ص۸، مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۱۷ئ)
دراصل قادیانیت کے بانی اور اس کے فرقۂ ضالہ نے مسلمانوں اور اپنے درمیان نئے اعتقادات ونظریات کی وسیع خلیج حائل کر کے خود ہی ایک قسم کے سوشل بائیکاٹ کو رائج کر دیا تھا۔ مندرجہ بالا سطور سے قارئین پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہوگی کہ ابتداء ہی میں قادیانیوں کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ ان کے عقائد کے حامل افراد ایک مختلف گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی حیثیت ملت اسلامیہ سے بالکل جداگانہ ہے۔ ۱۹۰۱ء میں جب مرزاغلام احمد قادیانی نے جماعت احمدیہ کی ابتداء کی تو خود ہی حکومت سے استدعا کی کہ انہیں مردم شماری کے ریکارڈ میں ایک علیحدہ فرقے کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ مسلم دشمنی کی علمبردار حکومت نے مرزاقادیانی کی اس آرزو کی بھی تکمیل کر دی۔ اس طرح اس نام نہاد نبی نے خود ہی اپنے حریص ٹولے کو ملت اسلامیہ سے الگ کر لیا۔ منطقی لحاظ سے بھی مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت اسلام اور قادیانیت میں حد فاصل کھینچنے کے لئے کافی ہے۔
لہٰذا مسلمانوں کا اس فرقۂ ضالہ کو متفقہ رائے سے کافر، مرتد اور غیرمسلم قرار دینا بالکل صحیح اور عین حقائق کے مطابق ہے۔ وہ انہیں اسلام اور ملی سیاسیات کے لئے خطرناک سمجھنے میں بھی قطعی طور پر حق بجانب ہیں۔ بلکہ حالیہ واقعات تو اس سازشی فرقے کی مزید ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو بھی منظر عام پر لے آئے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کی کیسی صحیح ترجمانی کی ہے: ’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے۔ جس کے حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت الوہیت پر ایمان۔ انبیاء پر ایمان اور رسول کریمﷺ کی ختم رسالت پر ایمان۔ دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل (عقیدہ ختم نبوت) کو عبور کرنے کی