مرزاقادیانی نے اپنے ٹولے کو (غیراحمدیوں) مسلمانوں کی نماز جنازہ بھی پڑھنے سے روک دیا۔
’’جب نماز سمیت تمام تعلقات منقطع ہو چکے ہیں تو ان کے مردوں کے لئے نماز جنازہ پڑھنے کے لئے متردد نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۶۹)
اپنے اس عقیدے پر مرزاقادیانی اس شدت سے عمل پیرا تھا کہ اس نے اپنے سگے بیٹے کی نماز جنازہ میں بھی شرکت نہ کی۔ صرف اس لئے کہ وہ عظیم بیٹا شمع ختم نبوت کا پروانہ تھا اور مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت کا منکر۔ مرزاقادیانی کا ٹولہ آج بھی اپنے اس عقیدے پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ یہاں تک کہ قادیانی امت کے بزرجمہر چوہدری ظفر اﷲ خاں نے اپنے محسن بانی ٔ پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کی نماز جنازہ تک ادا نہ کی اور غیرمسلموں کی صف میں کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔
یوں غیرمسلموں کے ساتھ کھڑا ہوکر اس نے خود ہی ثبوت مہیا کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔
مرزاقادیانی نے مسلمانوں کی وحدت میں دراڑ پیدا کرنے کی ایک اور تدبیر اختراع کی۔ اس نے غیراحمدیوں کو لڑکیوں کا رشتہ دینے کی تو ممانعت کر دی۔ لیکن مصلحتاً مسلمانوں کی لڑکیوں کو بیاہ لانے کی اجازت بحال رکھی۔
ملاحظہ فرمائیے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے بیٹے اور اس کے خلیفہ ثانی نے اس امر کی وضاحت کیسے کی ہے؟ ’’حضرت مسیح موعود کا حکم اور زبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیراحمدی کو اپنی لڑکی نہ دے۔ اس کی تعمیل کرنا بھی ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔‘‘ (برکات خلافت ص۷۵)
’’جو شخص اپنی بیٹی کو غیراحمدیوں کے نکاح میں دیتا ہے وہ کافر ہوگا اور اسے جماعت سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔‘‘
مزید ملاحظہ فرمائیے: ’’چونکہ مندرجہ ذیل اصحاب نے اپنی اپنی لڑکیوں کے رشتے غیراحمدیوں کو دئیے ہیں۔ اس لئے ان کو حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اﷲ بنصرہ کی منظوری سے جماعت سے خارج کیا جاتا ہے اور وہاں کی جماعت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان سے قطع تعلق رکھیں۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۲ نمبر۶۹ ص۸، مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۳۴ئ)