گالیاں دینے اور ان کے خلاف اشتعال انگیز کاروائیاں کرنے سے باز رہیں۔ اس پابندی پر عمل کرانے کے لئے اسے تحریری عہدنامہ عدالت میں داخل کرنے کو کہاگیا۔ قادیانی متنبی نے اپنے ولی نعمت کی عدالت میں نہ صرف تحریری طور پر توبہ نامہ پیش کر دیا۔ بلکہ پبلک میں اس امر کا اعتراف بھی کر لیا۔ ’’میں نے عدالت میں عہدنامہ پیش کیا کہ آئندہ ہم سخت الفاظ سے کام نہ لیں گے۔‘‘
(تمہید کتاب البریہ غلام احمد ص۱۵، خزائن ج۱۳ ص ایضاً)
لیکن وہ اپنی فطرت سے مجبور تھے۔ ضبط نفس کی صفت سے محروم تھا۔ یہ تحریری عہد نامہ ان کی بے لگام زبان کو لگام نہ دے سکا۔ مخالفین کے ساتھ مغلظ گالیوں کا طوفان جہاں مرزاقادیانی کے کردار پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ وہاں یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ اس نے خود ہی مسلمانوں اور قادیانیوں میں حد فاصل مقرر کر کے امت محمدیہ اور اپنے پیروکاروں میں تفریق کی بنیادیں رکھ دی تھیں۔ اس نے اپنے فرقۂ ضالہ کے لئے الگ اور نئے مذہبی عقائد ہی نہ گھڑے بلکہ معاشرتی معاملات میں بھی علیحدگی اختیار کر کے مسلمانوں کی وحدت کو پاش پاش کرتے ہوئے ایک نئی اور علیحدہ امت کی بنیاد رکھی۔
مرزاقادیانی نے اپنے پیروکاروں کو مسلمان اماموں کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے روک دیا اور اس طرح خود ہی ملت اسلامیہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔
’’پس یاد رکھو جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو… جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں۔ بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایسا ہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑیہ ص۱۸، خزائن ج۱۷ ص۶۴)
ایک بار مرزاقادیانی کے معتقدوں میں سے کسی نے اس سے سوال کیا کہ کیا وہ کسی ایسے امام کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتا ہے جس کے عقائد سے وہ واقف نہیں؟
جواب ملا: ’’نہیں پہلے تمہارا فرض ہے۔ اس کے عقائد معلوم کرو۔ اگر وہ میری تصدیق کرتا ہے تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھ لو اور اگر وہ مجھے جھٹلاتا ہے تو یہ جائز نہیں اور اگر وہ نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے۔ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ حصہ چہارم ص۴۶، مرتبہ منظور الٰہی)