مرزاقادیانی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے پرجوش مسلمانوں کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ لہٰذا جوش گفتاری اور طبع آزمائی ملاحظہ فرمائیے۔
’’کنجریوں کے بچوں کے بغیر جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگادی ہے۔ باقی سب میری نبوت پر ایمان لاچکے ہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷)
اور میرے دشمن جنگلوں کے سور بن گئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے آگے بڑھ گئی ہیں۔‘‘ (نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
’’بعض خبیث طبع مولوی جو یہودیت کا خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب جانوروں سے زیادہ پلید خنزیر ہے۔ مگر خنزیر سے زیادہ پلید وہ لوگ ہیں۔ اے مردار خور مولویو! اور گندی روحو! اے بدذات فرقہ مولویاں۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۳۰۵)
مشہور عالم دین مولانا ثناء اﷲؒ کے لئے انتہائی گندے الفاظ استعمال کئے ہیں جو نبی تو درکنار کسی بازاری آدمی کی زبان سے بھی زیب نہیں دیتے۔
’’ابن ہوا، غدار۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۴۳، خزائن ج۱۹ ص۱۵۴)
’’کفن فروش کتا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲۳، خزائن ج۱۹ ص۱۳۲)
’’خبیث، سور، کتا، بدذات، گوں خور۔ ہم اس (ثناء اﷲ) کو کبھی جلسہ عام میں نہ بولنے دیں گے۔ گدھے کی طرح لگام دے کر بٹھائیں گے اور گندگی اس کے منہ میں ڈالیں گے۔‘‘
(بحوالہ الہامات مرزا از شیخ الاسلام ص۱۲۲)
وہ شائستگی کی تمام حدود پار کرتے ہوئے پیغمبران خدا کو بھی اپنی ہرزہ سرائی کا ہدف بنانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ نقل کفر کفر نہ باشد کے مقولہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے قارئین سے معذرت کے ساتھ اس کی دریدہ دہنی کی مثال پیش کی جاتی ہے۔
’’عیسیٰ کا رجحان زنا کاری کی طرف تھا۔ کیونکہ آپ کی تین دادیاں اور نانیاں کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔‘‘
(انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
مرزاقادیانی کی تحریروں میں اس قسم کی ہرزہ سرائیاں بکثرت ملتی ہیں۔ درحقیقت وہ اشتعال انگیزی، دشنام طرازی اور ناشائستہ انداز گفتگو میں اتنا آگے جاچکے تھے کہ گورداسپور کی عدالت کو انہیں بددماغ اور دشنام طراز قرار دیتے ہوئے یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ وہ اپنے مخالفین کو