کہ پہلے بھی تحریر کیا جاچکا ہے کہ لفظی تحریف کے علاوہ وہ معنوی اور منصبی تحریف کی جسارت کا بھی مرتکب ہوئے ہیں اور اس طرح انہوں نے متعلقہ آیات کے سارے سیاق وسباق کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
اپنی تصنیف حقیقت الوحی میں مرزاقادیانی نے قرآن حکیم کی مشہور ومعروف آیت: ’’یٰسین۰ والقرآن الحکیم۰ انک لمن المرسلین‘‘ میں سے صرف ’’والقرآن الحکیم‘‘ کے الفاظ کو حذف کر دیا۔ بلکہ اس آیت کو اپنے مطلب کے مطابق نئے معنی پہناتے ہوئے اصرار کیا کہ اس آیت میں جس شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ رسول عربی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی کا وجود ہے۔ اس طرح وہ الفاظ کو حذف کرنے اور آیت کو اپنے پر منطبق کرنے کے دوہرے گناہ کے مرتکب ہوئے۔ قرآنی آیت: ’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین‘‘ میں حضرت محمد مصطفیﷺ کو رحمتہ للعالمین کی صفت سے موصوف کیاگیا ہے۔ لیکن اس کاذب کا کذب ملاحظہ فرمائیے کہ اس نے اس آیت کا اطلاق بھی اپنے اوپر کر لیا۔ (حقیقت الوحی ص۸۲، خزائن ج۲۲ ص۸۵)
قرآن حکیم کی سورۃ الصف آیت:۸ ’’ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک پیش گوئی امام الانبیاء ختم المرسلین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کا اسم مبارک احمد بھی ہے، سے متعلق بیان فرمائی گئی ہے۔ اس نے اس قرآنی آیت کو بھی اپنے اوپر چسپاں کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ یہ آیت رسول عرب وعجم حضرت محمد مصطفیﷺ کے بارے میں نہیں بلکہ احمد کے لئے نازل ہوئی ہے اور احمد سے مراد اس نے اپنا وجود لیا ہے۔ حالانکہ ان کا نام غلام احمد تھا اور ہر ذی عقل یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایک پیش گوئی جو احمد سے منسوب ہو۔ غلام احمد یعنی احمد کے غلام پر کس طرح چسپاں ہوسکتی ہے؟
سورۃ الفتح کی آخری آیت میں پیغمبر اسلام کا اسم مبارک محمد مذکور ہے اور یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ آیت سرور کائنات حضرت محمدﷺ کی شان مبارک میں نازل ہوئی تھی۔ آپؐ کے امتیوں میں سے کوئی شخص بھی یہ جسارت نہیں کر سکتا کہ حضورﷺ کو ان کے بلند مرتبے سے محروم کر کے خود اس پر قابض ہو جائے۔ لیکن قادیانی صاحب جن کا مقصد ہی محمدﷺ کے مذہب پر کاری ضرب لگانا تھا۔ اس آیت کا اطلاق بھی اپنے اوپر کرتے ہوئے یہ اصرار کرتے رہے کہ اﷲتعالیٰ نے بذریعہ اسے مطلع کیا ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ کے الفاظ سے مراد مرزاغلام احمد ہے۔