غلام احمد کے بیٹے مرزابشیر الدین محمود نے سورۃ فاتحہ کی آخری آیت: ’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’جن پر نہ تو بعد میں تیرا غضب نازل ہوا ہے اور نہ وہ بعد میں گمراہ ہوگئے ہیں۔‘‘
حالانکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’نہ (دکھا) رستہ ان لوگوں کا جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ان لوگوں کا جو گمراہ ہوگئے۔‘‘
ان حقائق کے باوجود اگر کوئی قادیانی مصر ہے کہ مرزاقادیانی قرآنی متن میں تحریف کا مرتکب نہیں ہوئے تو پھر یا تو وہ جہالت وبے خبری کا شکار ہے یا جان بوجھ کر اس مسلک کے بانی کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ حالانکہ تنہا یہی ایک جرم انہیں دائرہ اسلام سے خارج کر دینے کے لئے کافی تھا۔
یہ کرتوت تو قادیانیت کے بانی کے تھے۔ لیکن ان کے گمراہ پیروکار تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے اسلام کی پہلی شرط کلمۂ توحید ہی کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کلمہ میں محمد کے لفظ کو الاحمد میں تبدیل کر دیا ہے۔
نائجیریا کی قادیانی عبادت گاہ کی پیشانی پر یہ کلمہ جلی حروف میں تحریر کیاگیا ہے اور محمد رسول اﷲ کے الفاظ کی بجائے الاحمد رسول اﷲ کے الفاظ درج کئے گئے ہیں۔ نیز ربوہ سے مطبوعہ کتاب ’’AFRICA SPEAKS‘‘ میں اس عبادت گاہ کی تصویر شامل ہے اور تحریف شدہ کلمہ عبادت گاہ کی پیشانی پر نمایاں ہے۔ اس باب کو ختم کرنے سے پیشتر یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ مرزاقادیانی اپنی زندگی کے اوّلین دور میں اپنی بعض تحریروں میں قرآن کریم میں کسی قسم کی تحریف کے مرتکب شخص کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کی ایک تصنیف ازالہ اوہام سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
’’قرآن حکیم آخری آسمانی کتاب ہے۔ اس کی آیات واحکامات میں کسی شوشے یا نقطے کی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔ قرآنی احکامات کی تبدیلی منسوخی کے سلسلہ میں اب خداتعالیٰ کی طرف سے کسی وحی یا الہام کے نزول کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ اسے ممکن سمجھنے والا شخص میرے خیال میں مرتد، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۳۷،۱۳۸، خزائن ج۳ ص۱۷۰)
بہرحال قرآن حکیم میں تحریف کی مندرجہ بالا چند مثالوں کے مطالعہ سے جو غیرارادی