پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔}
الشیطان ثم یحکم اﷲ آیا‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۲۲، خزائن ج۳ ص۳۲۱)
مندرجہ بالا آیت کریمہ اور اس کی تحریف ناظرین پر یہ منکشف اور واضح ہوچکا ہوگا کہ مرزاقادیانی نے ’’من رسول‘‘ تک قرآن حکیم کی آیت کا اصل متن تحریر کرنے کے بعد باقی حصے میں تبدیلی کرتے ہوئے نہایت ہوشیاری سے لفظ محدث کا اضافہ کر دیا ہے۔ جو سارے قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں۔ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پیشتر چونکہ وہ اپنے آپ کو محدث یعنی وہ شخص جس کے گمان اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہوں۔ ’’وعلم من اﷲ‘‘ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اسے یہ چال چلنا پڑی۔
’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلم بالتی ہی احسن (النحل:۱۲۵)‘‘ {(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک بصحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔}
’’وقال جادلہم (ای جادل النصاری) بالحکمۃ والموعظۃ‘‘ اس نے یہ تو کیا کہ عیسائیوں سے حکمت اور نیک نصیحت کے طور پر بحث کرو۔
(نور الحق ص۴۶، خزائن ج۸ ص۶۳)
اس ساری آیت ہی کو مرزاقادیانی نے تبدیل کر کے رکھ دیا۔ یہ تبدیلی کسی ایک تصنیف میں نہیں بلکہ دو مختلف تصانیف میں موجود ہیں اور معنی بھی تحریفی ہی ہیں۔
’’الم یعلموا انہ من یحادد اﷲ ورسولہ فان لہ نار جہنم خالدا فیہا ذالک الخزی العظیم (توبہ:۶۳)‘‘ {کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص خدا اور رسول سے مقابلہ کرتا ہے۔ تو اس کے لئے جہنم کی آگ (تیار) ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا۔ یہ بڑی رسوائی ہے۔}
’’الم یعلموا انہ من یحادد اﷲ ورسولہ ید خلہ نارا خالدا فیہا ذالک الخزی العظیم‘‘ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو شخص خدا اور رسول کی مخالفت کرے خدا اسی کو جہنم میں ڈالے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ یہ ایک بڑی رسوائی ہے۔
(حقیقت الوحی ص۱۳۰، خزائن ج۲۲ ص۱۳۳)