ایک جمعے کا خطبہ بھی سن لیجئے: ’’قادیان کو دنیا میں ناف کے طور پر بنایا ہے اور اس کو تمام جہان کے لئے ام قرار دیا ہے اور اس مقدس مقام کے بغیر دنیا کو کوئی فیض حاصل کرنا ناممکن ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۱۲ نمبر۷۱ ص۱۰، مورخہ ۳؍جنوری ۱۹۲۵ئ)
اور یہ دشمن دین کس کس انداز سے شعائر اسلام کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہ قادیان کی مسجد ضرار کو مسجد اقصیٰ سے، امام الانبیائ، خاتم النبیینؒ جہاں معراج کی رات تشریف لے گئے۔ افضل بتاتا ہے۔
حالانکہ قرآن حکیم کا فرمان مسجد اقصیٰ سے متعلق واضح ہے: ’’سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی بٰرکنا حولہ لنریہ من ایٰتنا (بنی اسرائیل:۱)‘‘ {وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا۔ تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔}
قرآن پاک کی آیت کریمہ کے برعکس مرزاقادیان کی ہذیان گوئی ملاحظہ فرمائیں: ’’اس معراج میں آنحضرتﷺ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر فرماہوئے اور وہ مسجد اقصیٰ یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۲۵حاشیہ، خزائن ج۱۶ ص۲۵)
اور پھر گستاخی کی انتہاء دیکھئے کہ قادیان کو بیت اﷲ شریف کا قائم مقام بتایا جاتا ہے۔ ’’ہمارا سالانہ جلسہ بھی حج کی طرح ہے… خداوند کریم نے قادیان کو اس کام کے لئے پسند کیا ہے اور جیسا حج میں رفث فسوق اور جدال منع ہے۔ ایسا ہی اس جلسہ میں بھی منع ہے۔‘‘
(برکات خلافت ص ز)
یہ امر قابل غور ہے کہ مرزامحمود اور اس کے باپ کے پیروکار ایک نام نہاد اقصیٰ تو بھارت میں چھوڑ آئے تھے اور اب دوسری اقصیٰ ربوہ میں تعمیر کر چکے ہیں۔ اس نئی اقصیٰ کی حیثیت کے متعلق قادیانی حضرات کیا فتویٰ صادر فرماتے ہیں۔
مندرجہ بالا تمام اقتباسات اس تصریح کے لئے کافی ہیں کہ قادیانیوں کے اپنے مخصوص نظریات اور جداگانہ معتقدات ہیں۔ جن کا مسلمانوں کے عقائد سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا اپنا نام نہاد نبی مرزاغلام احمد ہے۔ اپنی کتاب تذکرہ اور اپنی شریعت ہے۔ وہ مکہ کی بجائے ایک علیحدہ مرکز قادیان کے تابع ہیں۔ یاد رہے کہ اب قادیان کی جگہ ربوہ (چناب نگر) نے لے لی ہے۔ جہاں وہ