مرزاقادیانی کے کذب وافتراء پر مشتمل اپنی کتاب ہے۔ جسے وہ تذکرہ کا نام دیتا ہے۔ اس کے بیس اجزاء ہیں۔ ہر جزو متعدد آیات (نام نہاد الہامات) پر مشتمل ہے۔
علاوہ ازیں یہ جھوٹا مدعی نبوت اپنے آپ کو رحمتہ اللعالمین محمد مصطفیﷺ فداہ امی وابی کا ہم پہلو بتاتا ہے۔ قارئین کرام اس کی ہرزہ سرائی ملاحظہ فرمائیں: ’’جو شخص مجھ میں اور نبی مصطفیﷺ میں فرق کرتا ہے۔ اس نے مجھے نہیں جانا اور نہیں پہچانا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۹)
حد تو یہ ہے کہ یہ کاذب تو ذات خداوندی پر بھی کذب وافتراء باندھنے سے گریز نہیں کرتا۔ ’’خدا نے مجھ سے کہا تو مجھ سے ظاہر ہوا میں تجھ سے۔‘‘ ’’تو مجھ سے ایسا ہی ہے۔ جیسا کہ میں ہی ظاہر ہوگیا۔ یعنی تیرا ظہور بعینہ میرا ظہور ہوگیا۔‘‘ (تذکرہ ص۷۰۴)
انگریزوں کے اس آلۂ کار متنبی نے اپنی علیحدہ شریعت پیش کرنے کی بھی شرانگیز کوشش کی۔ ’’میں صاحب شریعت ہوں۔ میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نبی بھی۔‘‘
(اربعین حصہ چہارم ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
چودھویں صدی کا یہ دجال جس کا قلب وذہن ختم المرسلین فخر انبیاء حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سمیت تمام پیغمبروں کے احترام سے بیگانہ تھا۔ جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے کوئی شرم وحیا محسوس نہ کرتا تھا۔ جو کلام اﷲ پر قطعاً ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اس کے ماننے والوں سے کسی صحیح عقیدے کی توقع رکھنا محض عبث ہے۔ وہ تو اس سے بھی بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر وہ ایک کاذب نبی کے پیرو جو ٹھہرے وہ تو مرزاغلام احمد قادیانی کی جنم بھومی قادیان کی پرستش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اس ملعون مقام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت اسماعیل علیہ السلام کے آباد کردہ مقدس شہر، خاتم الانبیاء سرور کائنات حضور محمدﷺ کی جائے ولادت، مرجع خلائق، ام القریٰ مکہ مکرمہ کے برابر مقام دیتے ہیں۔ اس کاذب نبی کے جانشین مرزامحمود احمد کی دریدہ دہنی ملاحظہ فرمائیں۔
’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے بتادیا ہے کہ قادیان کی زمین بابرکت ہے۔ یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والی برکات نازل ہوتی ہیں۔‘‘
(الفضل قادیان ج۲۰ نمبر۷۰ ص۱، مورخہ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۲ئ)
(گویا اﷲتعالیٰ مرزاقادیانی کے سارے خاندان ہی سے ہم کلام ہوتا رہتا ہے)