برطانوی دسترخوان کے زلہ خوار مرزاغلام احمد قادیانی نے ان غدارانہ مساعی کو فخریہ بیان کیا ہے: ’’میرے والد غلام مرتضیٰ دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے۔ سرکار انگریزی کے ایسے خیرخواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ ۱۸۵۷ء میں پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جنگ جو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ اس گورنمنٹ عالیہ کو مدد دی تھی۔‘‘
(تحفہ قیصریہ ص۱۸،۱۹، خزائن ج۱۲ ص۲۷۰،۲۷۱)
مرزاقادیانی کے باپ نے اسی پر اکتفاء نہ کیا۔ بلکہ سکھوں کے عہد میں مجاہد آزادی، اسلام کے بطل عظیم سید اسماعیل شہیدؒ کی مخالفت کرتے ہوئے فرعونی قوتوں کا ساتھ دیا۔
برطانوی حکمران افغانستان کے خلاف صف آراء ہوئے تو مسلمانوں نے علم جہاد بلند کرنے کی نیت سے اپنے پراگندہ ومنتشر قوت کو متحد کرنے اور اپنے وسائل کو یک جا کرنے کی مساعی کا آغاز کیا۔ مسلمانوں کے ساتھ مختلف جھڑپوں اور تصادمات کے دوران بالآخر استعماری طاقتوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ ان کے منتشر دشمنوں کو جس جذبے نے یکجا کیا ہے۔ وہ شوق شہادت ہے۔ فریضۂ جہاد ہی نے ان کے قلب ونظر کو جلا بخشی ہے اور وہ سربکف تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دشمنوں کے خلاف بیک جان محاذ آرا ہو جاتے ہیں۔ برطانویوں نے برصغیر کے علاوہ ترکی میں بھی اپنی مذموم سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھا۔ روس، ترکی پر قبضہ جمانے کے لئے دانت تیز کر رہا تھا۔ ترکی نے شمع آزادی کو فروزاں رکھنے کے لئے طویل جدوجہد کی۔ بالآخر جب روسی یلغار کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگیا تو بہ امر مجبوری غاصبوں کی پیش کردہ صلح کی شرائط کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس دوران میں انگریزوں کے استعماری عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے تھے۔ انہوں نے ترکی کی بے بسی سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے عیارانہ حربوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعہ قبرص کے علاقہ پر مکمل قبضہ جمالیا۔
۱۸۸۱ء میں برطانوی فوجوں نے اپنی مکارانہ چالوں سے مصریوں کو مغلوب کر لیا۔ سوڈان میں مسلمانوں نے شدید مزاحمت کر کے انگریزوں کے دانت کھٹے کئے۔ لیکن بالآخر سامراجی فوجوں کی وحشیانہ جارحیت ہی کامیاب رہی۔ برطانوی یلغار نے عدن اور بحرین کو بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا اور اسے بھی زیر کر کے ہی دم لیا۔
بظاہر اسلام دشمن طاقتوں نے اپنی حریف ملت اسلامیہ کو بے دست وپا کر دیا تھا۔ لیکن وہ خائف بھی تھیں کہ یہ زخم خوردہ شیر کسی وقت بھی کچار سے باہر آسکتا ہے۔ غیرت وحمیت کی