دبی ہوئی چنگاری کسی لمحہ بھی شعلہ بن کر ان کی اخلاقی اقدر سے عاری شجاعت ودلیری کے ایوانوں کو راکھ بناسکتی ہے اور ان کے کبرونخوت کے محلات کو ملیا میٹ کر سکتی ہے۔ استعماری قوتیں اس امر سے باخبر تھیں کہ جذبۂ جہاد سے سرشار مسلمانوں کے ہاتھوں ان کے مفتوحہ علاقے کسی وقت بھی ان کے اقتدار کا قبرستان بن سکتے ہیں۔ لہٰذا اب ان کے پیش نظر اگر کوئی نصب العین تھا تو وہ مسلمانوں میں جہاد کی روح کو کچلنا تھا۔ یہودی پہلے ہی اس جذبے کو پامال کرنے کے لئے ادھار کھائے بیٹھے تھے اور مسلمانوں کو اس حکم خداوندی سے برگشتہ کرنے کے لئے دھڑا دھڑ لٹریچر شائع کر رہے تھے۔ انگریزوں نے ان کی خوب پیٹھ ٹھونکی۔ ان کے معاندانہ خیالات کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن اپنی تمام تر مساعی کے باوجود دشمنان اسلام مسلمانوں کے دلوں سے جذبۂ جہاد کی روشن شمع گل نہ کر سکے۔ بالآخر وہ اسی نتیجہ پر پہنچے کہ اس مہم کو سر کرنے کے لئے مسلمانوں کے ہاں کسی غدار کو آمادہ کیا جائے۔ کسی ففتھ کالمسٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کی پیٹھ ٹھونکی جائے۔ اس کی سرپرستی کی جائے اور اسے اپنا آلۂ کار بنایا جائے۔ ان کی آنکھیں تو پہلے ہی قادیان کے اس خود ساختہ نبی پر لگی ہوئی تھیں۔ ان کی نظر میں یہی وہ شخص تھا جو ان کے مذموم عزائم کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں مدو معاون ثابت ہوسکتا تھا اور ان کا دست وبازو بن کر جہاد بالسیف کو حرام قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے اتحاد میں دراڑ ڈال سکتا تھا۔ ہزایکیسلنی لارڈ ریڈنگ کی خدمت میں قادیانی ایڈریس ان تلخ حقائق پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ متعلقہ اقتباس پیش خدمت ہے: ’’جب مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ تمام اسلامی دنیا جذبۂ جہاد سے سرشار تھی۔ اس کی حالت پٹرول کے بیرل کی مانند تھی۔ جو بھڑکنے کے لئے کسی شعلے کا منتظر ہو۔ لیکن بانی تحریک نے جہاد کے غیراسلامی اور خلاف امن تصور کی مخالفت میں پورے زورشور سے تحریک چلائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بمشکل چندسال ہی گذرے تھے کہ ارکان حکومت کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جس فرقہ کی تشکیل کو وہ امن کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ وہ ان کے لئے غیرمعمولی طور پر باعث اعانت وتقویت ثابت ہوئی ہے۔‘‘
(الفضل قادیان ج۹ نمبر۴ ص۳ مورخہ ۱۴؍جولائی ۱۹۲۱ئ)
مرزاغلام احمد قادیانی نے فریضہ جہاد کے خلاف بہت کچھ لکھا اور اسلام کے اس واضح حکم کی شدید مخالفت کی۔ اس نے اپنے زہر آلود خیالات کی تشہیر کے لئے مختلف زبانوں میں کتابیں لکھ کر اسلامی ممالک میں بھجوائیں۔ اس سلسلے میں اس کا اپنا بیان ملاحظہ فرمائیں۔