’’۱۹۰۰ء میں اس نے اپنے اس نظریہ کو پیش کیا کہ آئندہ کے لئے جہاد بالسیف منسوخ کیا جاتا ہے۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۹)
فریضہ جہاد سے متعلق مرزاغلام احمدقادیانی کے عقائد کی وضاحت کے لئے اس کی اپنی تحریروں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں: ’’لوگو! میں تمہارے لئے ایک حکم لایا ہوں کہ آئندہ سے جہاد بالسیف ممنوع ہے۔‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص ایضاً)
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کے لئے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶، خزائن ج۱۷ ص۷۷)
’’کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقرر فرمایا ہے۔ ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۵۷)
’’اب اس کے بعد جو شخص کافر پرر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے۔ وہ اﷲتعالیٰ اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرتا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
’’میں نے زندگی کا بیشتر حصہ برطانوی حکومت کی اطاعت اور جہاد کی مخالفت کرنے میں گذارا۔ میں نے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ مسلمان دل سے حکومت کے وفادار ہوگئے۔‘‘
دراصل بعض دنیوی مصلحتوں کے تحت مرزاغلام احمد قادیانی نے قرآن پاک اور احادیث نبوی کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہوئے فریضہ جہاد کو حرام قرار دے دیا تھا۔ خدشہ تھا کہ باحمیت اور غیرت مند اسلامیان ہند کہیں اس کے مسیح آقاؤں سے ٹکر نہ لے بیٹھیں۔ لہٰذا حکومت کی خوشنودی اور اپنے دنیوی مفاد کے پیش نظر اس نے دین فروشی اور اسلام سے غداری کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ جہاد کی مخالفت میں اس کاذب نبی کی ایک گہری چال تھی۔ ایک بھیانک سازش جس کے دوررس نتائج کی زد میں امت مسلمہ کی سیاسی زندگی بلکہ خود اسلام تھا۔ اس سازش کا تفصیلی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔