عبداﷲ اپنی نبوت کو مرزاقادیانی ہی کے روحانی فیوض وبرکات کا مرہون منت سمجھتا تھا۔ غلام محمد قادیانی کو بھی نبی بننے کی سوجھی تو خدا کی قسم کھا کر دعویٰ کر دیا کہ: ’’مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا تمام الہامات ومکاشفات میں تمام شاہانہ تصور اور اس کے متعلقہ کاروبار میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف میں ہی ان سب کا مصداق اور مدعی صادق ہوں۔‘‘
(رسالہ نمبر ہشتم منجانب شیخ غلام محمد بشیر الدولہ روحانی فرزند ارجمند مسیح موعود)
عبداللطیف قادیانی اور چراغ دین قادیانی نے بھی نبوت کے ایسے ہی دعوؤں کا برملا اعلان کیا۔ ظاہر ہے اس قسم کے اعتقادات ودعاوی قرآنی تعلیمات واحادیث نبوی سے صریحاً متضاد ہیں۔ اسلام میں ایسے ملحدانہ وکافرانہ افکار کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسلام اور قادیانیت میں دوسرا اختلاف
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور یوم حشر سے قبل دنیا میں ان کے دوبارہ ورود سے متعلق ہے۔ امت اسلامیہ کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر انتقال نہیں فرمایا۔ وہ آسمانوں پر زندہ اٹھالئے گئے اور قیامت سے قبل ان کا روئے زمین پر نزول ہوگا۔
اس کے برعکس مرزاغلام احمد قادیانی کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کی موت سے بچ کر کشمیر چلے گئے اور بعد میں طبعی طور پر اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔ نیز قبل از قیامت جس مسیح صفت مہدی موعود کا انتظار ہے۔ وہ خود مرزاغلام احمد قادیانی ہے۔
اسلام اور مرزائیت میں تیسرا اہم اختلاف
مسئلہ جہاد سے متعلق ہے۔ اس امر پر بھی بلاتخصیص اسلامیان عالم متفق ہیں کہ جہاد فی سبیل اﷲ مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس مسئلہ پر امت اسلامیہ میں کبھی کوئی اختلاف رونما نہیں ہوا۔
قرآن حکیم میں سورۃ البقرہ کی آیات ۱۵۴،۱۹۰تا۱۹۴، سورۃ آل عمران کی آیات۱۵۷، ۱۵۸، ۱۶۹، سورۃ النساء کی آیات ۷۱،۷۴تا۷۵،۸۴،۹۵، سورۃ التوبہ کی آیات۴ا، ۳۸،۳۹،۴۱،۱۲۳، سورۃ الانفال کی آیات ۱۵،۱۶، ۶۰،۶۵، سورۃ محمد کی آیات ۴،۴۷ اور سورۃ الحج کی آیات ۲۹،۴۰، سورۃ الفرقان کی آیت ۵۲، سورۃ الصف کی آیات ۱۰تا۱۳ کے ذریعہ مسلمانوں کو فریضۂ جہاد کو بجالانے کا حکم دیاگیا۔ لیکن دشمن اسلام مرزاغلام احمد قادیانی نے قرآن کے اس واضح حکم کے خلاف فریضۂ جہاد بالسیف کو حرام قرار دینے کی ناپاک جسارت کی۔ لہٰذا منیر انکوائری رپورٹ میں مندرج ہے۔