اسلام اور قادیانیت کا پہلا بنیادی اختلاف
مسئلہ ختم نبوت سے متعلق ہے۔ اس کا ذکر تو پہلے باب میں بھی کیا جاچکا ہے۔ یہاں صرف اتنا واضح کر دینا کافی ہے کہ قادیانیت کے پیرو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کی ختم المرسلینی پر ایمان نہیں رکھتے۔ مرزاقادیانی کو اپنا نبی مانتے ہیں۔ ان کے خیال میں رسالت مآب حضرت محمدﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ بلکہ اس کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے رسالہ ’’شرائط بیعت‘‘ میں عقیدہ سے متعلق آرٹیکلز کی پانچویں شق کی عبارت ہدیۂ ناظرین کی جاتی ہے۔
’’نبوت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہا ہے اور کھلا رہے گا۔ خدا کی کوئی صفت بے کار نہیں ہو جاتی۔ جس طرح وہ پہلے اپنے نیک بندوں سے بذریعہ وحی ہم کلام ہوتا تھا۔ وہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔‘‘
یہ امر کسی کے لئے تعجب انگیز نہیں ہونا چاہئے کہ قادیانیوں نے جب اپنے مذہبی پیشوا مرزاغلام احمد قادیانی کو مصلح سے مسیحا اور مسیحا سے نبی کے درجہ تک ارتقا پذیر ہوتے دیکھا تو ان کے دل میں بھی اپنے روحانی پیشوا کے نقش قدم پر گامزن ہونے کی خواہش نے چٹکیاں لینی شروع کیں۔ چنانچہ سب سے پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کے بیٹے کے معلم مسٹر یار محمد نے مرزا کے نام نہاد الہامات کو اپنی طرف منسوب کرنے کا اعلان کر دیا۔ بعدازاں ایک اور قادیانی احمد نور نامی بھی نبوت کا دعویدار بن کر اکھاڑے میں اتر آیا اور لوگوں کو تبلیغ کرنا شروع کر دی۔
’’اے لوگو! میں اﷲ کا رسول ہوں۔ اب آسمان کے نیچے اﷲ کا دین میری تابع فرمانی ہے۔ میرا مان لینا اﷲ کا دین ہے اور میرے خلاف اور نہ مان لینا اﷲ کے دین سے اخراج ہے۔‘‘ دکن میں شوراپور کے نواحی علاقے تیمارپور کا مولوی عبداﷲ جسے مرزاغلام احمد قادیانی کا مصاحب ہونے کا شرف حاصل تھا۔ کیوں پیچھے رہتا۔ فوراً مقابلے میں آیا اور اعلان کر دیا کہ: ’’غلام احمد کی پیش گوئیوں کے مطابق میں نبی ہوں۔ میں خدا کا رسول ہوں۔ تم سب کو میری پیروی کرنی چاہئے۔ میں قادیان کا اصل خلیفہ ہوں۔‘‘
’’اﷲ پاک نے نیز اپنے ایک برگزیدہ غلام احمد کو مسیح احمد بنا کے بھیجا۔ پھر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ پھر وہی بادشاہ زمین وآسمان نے اس عاجز کو چن لیا تاکہ زور آور حملوں سے غلام احمد کی سچائی کو ظاہر کرے۔‘‘ (تفسیر آسمانی طبع المثانی عبداﷲ تیماپوری)