خط کا متن کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ اس کا آغاز ایک پیش گوئی سے ہوتا ہے۔ لیکن تحریر کنندہ کو یقین ہے کہ اس پیش گوئی کا حشر بھی دوسری پیش گوئیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ لہٰذا ترغیب وتحریص اور دھمکیوں کا نسخہ بھی ساتھ ہی آزمایا جارہا ہے۔ مرزاقادیانی کی ایک اور تحریر ملاحظہ فرمائیں: ’’محمدی بیگم کا نکاح ایک طے شدہ امر ہے۔ مجھے اپنے رب کی قسم کہ یہ سچ ہے۔ وہ اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ خدا نے مجھے بتایا ہے۔ ہم خود اس کا نکاح تمہارے ساتھ کر چکے ہیں۔ ہماری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۴۰، خزائن ج۴ ص۳۵۰)
لیکن احمد بیگ تو غالباً کسی اور مٹی سے بنا تھا۔ اس پر تحریص وترغیب کے حربے کامیاب ہوئے اور نہ دھمکیاں کارگر ہوئیں۔ اس نے مرزاقادیانی کی یاوہ گوئی کی ذرہ بھر پرواہ نہ کی۔ جب مرزاقادیانی نے دیکھا کہ اس کی کوششیں رائیگاں جارہی ہیں تو اس نے مرزااحمد بیگ کو راضی کرنے کے لئے کئی قسم کے دباؤ ڈالے۔ لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ بالآخر ہوس کے اس بندے کو وہ دن بھی دیکھنا پڑا۔ جب محمدی بیگم کی شادی کی رسم ہندوستانی فوج کے ایک سپاہی سلطان بیگ کے ساتھ ادا ہوگئی۔
مرزاقادیانی کے لئے یہ گھاؤ بہت گہرا تھا۔ وہ دل تھام کر رہ گیا۔ وہ اپنی محبوب سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ ایک طرف تو وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا اور دوسری طرف اپنی ہیراپھیری اور چال بازیوں کی ناکام پر جگ ہنسائی کا خوف، خفت مٹانے کے لئے ایک اور پیش گوئی سنادی کہ محمدی بیگم تین سال کے عرصہ میں بیوہ ہونے پر اس کے نکاح میں آکر رہے گی۔
’’یہ درست ہے کہ محمدی بیگم کا نکاح مجھ سے نہیں ہوسکا۔ لیکن یہ حکم الٰہی ہے اور پیش گوئی کے مطابق انجام کار وہ میری زوجیت میں آکر رہے گی۔‘‘
’’اور پھر خدا کی قسم یہ بالکل سچ ہے کہ وہ میرے نکاح میں آئے گی۔ میں اس پیش گوئی کو اپنے صدق وکذب کی دلیل ٹھہراتا ہوں۔ میں نے یہ اس وقت تک نہیں کہا جب تک خداتعالیٰ نے مجھے اس کی خبر نہیں دی۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
مرزاقادیانی نے محمدی بیگم سے متعلق پہلی پیش گوئی ۱۸۸۸ء میں کی تھی۔ لیکن نہ تو محمدی بیگم کا شوہر سلطان بیگ تین سال کے عرصہ میں فوت ہوا اور نہ مرزاقادیانی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ البتہ ۱۹۰۸ء میں مرزاقادیانی، محمدی بیگم سے شادی کی حسرت دل میں لئے ہوئے اپنی روسیاہیوں کا حساب چکانے کے لئے اس دنیا سے کوچ کر گیا۔