کے ماہر ارضیات نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ایسے ہولناک زلزلوں کے بعد یکے بعد دیگرے مزید جھٹکوں کا رونما ہونا لازمی ہے۔ جو شدت کے لحاظ سے مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ ایک عام آدمی بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ روئے ارض کے مختلف مقامات پر وقتاً فوقتاً زلزلوں کے جھٹکے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن مرزاغلام احمد قادیانی جسے پیش گوئیاں کرنے کا جنون تھا۔ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے کیوں جانے دیتا؟ لہٰذا پہلے زلزلے کے صرف چار دن بعد یعنی ۸؍اپریل ۱۹۰۵ء کو یہ پیش گوئی سنادی کہ بہت جلد اس کی زندگی ہی میں ایک ہولناک زلزلہ رونما ہوگا۔ چند دن بعد اس نے ایک اور اشتہار کے ذریعہ قریب الوقوع زلزلے کا اعلان کیا۔
’’آج ۲۹؍اپریل ۱۹۰۵ء کو خداتعالیٰ نے مجھے ایک ہولناک زلزلے کی خبر دی ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۲۶)
ایک اور تحریر میں اس نے پرزور الفاظ میں کہا کہ اﷲتعالیٰ کی وحی کے مطابق زلزلہ سولہ سال کے اندر اس کی زندگی ہی میں رونما ہوگا۔ مرزاقادیانی نے ہوشیاری یہ کی کہ زلزلہ کے وقوع کے اوقات اور مقام کا ذکر حذف کرتے ہوئے مبہم الفاظ میں یہ پیش گوئی شائع کر دی۔
قارئین کرام! غور فرمائیے کہ سولہ سال کی طویل مدت کے دوران کسی ایک نہیں، بلکہ کئی ایک زلزلوں کا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں ہوتا۔ اس طویل مدت کا تعین بھی مرزاقادیانی کی چالاکی تھی۔ مرزاقادیانی نے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لئے اپنی قیاس آرائی کا غیرضروری طور پر کئی بار اعادہ کیا۔ مرزاقادیانی اپنے اوہام اور ڈھکوسلوں کو شائع کرنے پر ہی اکتفا نہ کرتا۔ بلکہ حکومت کو بھی اپنے بیمار ذہن کے اختراع کردہ آسمانی خطرات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتا اور مناسب انتظامات کرنے پر زور دیتا رہتا۔ لہٰذا اب کے بھی اس نے ایک پمفلٹ
''AN URGENT REQUESTT DEMANDING ATTNTION OF THE GOVERNMENT ''
شائع کیا اور حکومت کو بھی خبردار کرنے کے لئے اس کی نقول روانہ کر دیں۔ مرزاقادیانی کو اس پیش گوئی پر اتنا کامل یقین تھا کہ اس نے قادیان میں اپنے عشرت کدہ کو خیرباد کہہ کر قصبہ سے باہر باغ میں نہ صرف خود خیمے لگالئے بلکہ اپنے قادیانی ٹولے کو بھی اس کی ترغیب دی۔ اس سے مترشح ہے کہ مرزاقادیانی زلزلے کی صورت میں کسی ہولناک تباہی کا منتظر تھا۔ ایسی تباہی وبربادی جو سابقہ تمام ریکارڈوں کو مات کر دے اور جان ومال کے نقصان کے لحاظ سے اپنا ثانی نہ رکھتی ہو۔