’’اس جگہ طاعون تیزی پر ہے۔ ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور صرف چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے۔ خداتعالیٰ خوب جانتا ہے کب یہ ابتلاء دور ہو۔ مکرریہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ یا بیس روپے کا آتا ہے۔ ساتھ لے آویں اور علاوہ اس کے آپ بھی اپنے گھر کے لئے بھیج دیں اور ڈس انفیکٹ کے لئے رس کپور اس قدر بھیج دیں جو چند ماہ کے لئے کافی ہو۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۴ ص۱۱۳)
قدرت خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔ ایک شخص جو وحی خداوندی کے تحت طاعون کو اپنی دعاؤں کا ثمر اور اپنے نشانوں میں سے ایک عظیم الشان نشان سمجھتا ہو اور اپنے مخالفوں کے لئے عذاب الٰہی اور اپنے معتقدوں کے لئے رحمت خداوندی گردانتا ہو۔ ٹیکہ تک لگوانے سے انکار کر چکا ہو۔ کس طرح اب حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے لئے بے تاب نظر آتا ہے۔ بلکہ اپنے فرنگی آقاؤں کی خدمت میں ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’شکر کا مقام ہے کہ گورنمنٹ عالیہ انگریزی نے اپنی رعایا پر رحم کر کے دوبارہ طاعون سے بچانے کے لئے ٹیکہ کی تجویز کی اور بندگان خدا کی بہبودی کے لئے کئی لاکھ روپیہ کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لیا۔ درحقیقت یہ وہ کام ہے جس کا شکر گزاری سے استقبال کرنا دانش مند رعایا کا فرض ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۱، خزائن ج۱۹ ص۱)
اور ہاں یہ نام نہاد پیغمبر تو اپنے گھر کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند آفات وبلیات سے محفوظ سمجھتا تھا۔ اب غضب الٰہی سے اس کے گھر کا حصار اور اس کے مکین بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ بلکہ وہ خود بھی مرض کا شکار ہوتا ہے۔ اگرچہ موت ابھی اسے منہ نہیں لگاتی۔ مرزاقادیانی کی اپنی تحریر ملاحظہ فرمائیں: ’’طاعون تو ہمارے گھر میں بھی داخل ہوگئی ہے۔ بڑی غوثاں کوتپ ہوگیا تھا۔ اس کو گھر سے نکال دیا ہے۔ میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے اور ماسٹر محمد دین کو تپ ہوگیا اور گلٹی بھی نکل آئی۔ اس کو بھی باہر نکال دیا۔ آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہوگیا۔ بعض اوقات میں بھی ایسا بیمار ہواگیا کہ وہم گذرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اور خطرناک آثار ثاہر ہوگئے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۴ ص۱۱۵)
کیا اس کاذب نبی کے دعویٰ کی تردید میں مزید شواہد ودلائل کی ضرورت ہے۔ مرزاقادیانی کا ایک اور ڈھکوسلہ زلزلہ کی پیش گوئی سے مشہور ہوا۔ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو شمالی ہندوستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا جو کانگڑے کے زلزلہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سے گنجان آباد علاقے کھنڈرات میں بدل گئے۔ انسانی آبادیاں ویرانوں کی صورت اختیار کر گئیں۔ اس دور