۱۸۹۸ء میں جب طاعون کی وبا نے ہندوستان کے بعض حصوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تو مرزاقادیانی نے اپنا الہام شائع کیا کہ غضب الٰہی اس کے مخالفین کے لئے طاعون کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ اس وبا کے شکار صرف اس کے مخالفین ہوںگے۔ جنہوں نے اس کے نام نہاد دعوؤں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس کی توہین وتذلیل کے مرتکب ہوئے تھے۔
طاعون ابھی قادیان کی حدود سے دور تھی۔ مرزاقادیانی نے جوش مسرت میں قادیانیوں کو یہ خوشخبری بھی سنادی کہ وہ اپنے معتقدوں سمیت اس وبا سے محفوظ رہے گا۔ طاعون اس کے گھر کی چاردیواری میں داخل نہیں ہوسکے گی۔ نیز سارے قادیان کو اس وبا سے مامون ومحفوظ قرار دے دیا۔
’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا اور خداتعالیٰ بہرحال جب تک طاعون دنیا میں رہے گا۔ گوستر سال تک رہے۔ قادیان کو اس خوف ناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کے لئے نشان ہے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۰،۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰،۲۳۱)
اپنی اس قسم کی خوش فہمیوں کے تحت مرزاقادیانی نے طاعون کے خلاف حفاظتی تدابیر اختیار کرنے اور ٹیکہ لگوانے کی تجاویز کو حقارت سے ٹھکرادیا اور کہا: ’’یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ میں طاعون اور دوسری بیماریوں سے بچاؤ کے لئے دوائیوں کے استعمال اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو ممنوع قرار نہیں دیتا۔ کیونکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا اﷲتعالیٰ نے علاج پیدا نہ کیا ہو۔ لیکن میں ٹیکوں کے ذریعے اﷲتعالیٰ کے اس نشان کو مٹانے کے خلاف ہوں۔ جو اس نے کمال شفقت سے میرے اور میرے معتقدوں کے لئے ظاہر فرمایا اور جس کے ذریعہ وہ میرے ساتھ خلوص وفاداری کا تعلق رکھنے والوں کے لئے اپنے لطف وکرم کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا میں ٹیکہ لگوا کر اﷲتعالیٰ کے وعدوں پر بے اعتقادی اور رحمت کے اس عظیم الشان نشان کی توہین واہانت کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز ج۱ نمبر۱۱ ص۴۲۵ ملخص)
قارئین کرام کو اس امر پر متعجب نہیں ہونا چاہئے کہ اس بار بھی اس بشارت پر جو الہام پر مبنی تھی۔ وہی حشر ہوا جو اس سے پیشتر سینکڑوں کا ہوچکا تھا۔ پلیگ نہ صرف قادیان کے ہر کونے میں پھیلی بلکہ نام نہاد نبی کا عشرت کدہ بھی اس سے محفوظ نہ رہا۔ خوف سے مرزاقادیانی پر رعشہ طاری تھا۔ اس کی کیفیت کا اندازہ اس کے اس خط سے لگائیے۔ جو اس نے اپنے داماد محمد علی خان کے نام تحریر کیا۔