صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت والا ہوگا۔ مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ کلمتہ اﷲ ہے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کنارے تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت حاصل کریں گی۔‘‘ (تذکرہ ص۱۳۸،۱۳۹، طبع چہارم)
لیکن تدبیر خداوندی ملاحظہ فرمائیں کہ اس بشارت کا مصداق بقول مرزاقادیانی دنیا کا مسیحا، نجات دہندہ اور مصلح موعود آٹھ سال کی عمر ہی میں اس جہان فانی سے رحلت کر گیا اور اس کے کاذب باپ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ مرزاقادیانی کی کذب بیانی لوگوں پر آشکار ہوتی رہی۔ اس کے فریب عیاں ہوتے رہے۔ اسے شکست پر شکست اٹھانا پڑی۔ لوگ اس کی رسوائی وپسپائی کا نظارہ کرتے رہے۔ کوئی غیرت مند انسان ہوتا تو اسے منہ چھپائے نہ بنتی۔ لیکن حیاء وشرم سے عاری نبی کو کبھی بھی ذرہ بھر ندامت محسوس نہ ہوئی۔ اس نے تو اپنے مریدوں کو خوش فہمیوں میں مبتلا رکھنے کے لئے ایک جال بچھا رکھا تھا۔ اس کی ایک تدبیر ناکام ہوتی تو دوسری چال چلتا۔ ایک مسیح موعود (مبارک احمد) مرگیا تو تاویل سے کام لیتے ہوئے دوسرے کی پیدائش کی بشارت سناڈالی۔ لیکن اب کے بھی لڑکے کی بجائے عصمت نامی بیٹی تولد ہوئی اور مرزاقادیانی کی ناکام بشارتوں میں مزید ذلت کا باعث بنی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ بچی بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہی اور چھوٹی عمر میں مرزاقادیانی کی روسیاہیوں میں دو چند اضافہ کرتے ہوئے انتقال کر گئی۔
۱۹۰۵ء میں حکومت برطانیہ نے انتظامی مصلحتوں کے تحت بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ چونکہ اس تقسیم سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچنے کا امکان تھا۔ لہٰذا اس کے خلاف ہندوؤں کا ردعمل شدید تھا۔ انہوں نے منسوخ کرانے کے لئے شدید ہنگامہ بپا کر رکھا تھا۔ حکومت کا رویہ بھی سخت تھا اور بظاہر آثار یہی تھے کہ وہ تقسیم کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے شورش پسندوں کے مطالبے کو درخور اعتنا نہیں سمجھے گی۔ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مرزاقادیانی نے یہ موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اپنے طائفے کو یہ بشارت سنا دی کہ تقسیم بنگال قائم رہے گی اور دونوں صوبوں کا اتحاد بعیداز امکان ہے۔ فرنگی آقاؤں نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنے پروردہ کی لاج نہ رکھی اور دسمبر ۱۹۱۱ء میں جارج پنجم نے دہلی دربار کے موقع پر تقسیم بنگال کو منسوخ کرتے ہوئے صوبے کی سابقہ حالت کو بحال کر دیا۔ بنگال متحد ہوگیا اور کذابوں کے سر خیل مرزاقادیانی کو ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑی۔