اﷲتعالیٰ نے مرزاقادیانی کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ صدق وکذب، حق وباطل کا فیصلہ جلد ہی ہوگیا۔ صرف ایک سال بعد ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزاقادیانی اپنے حریف کی حیات کے دوران ہی ہیضہ کے مہلک مرض میں مبتلا ہوکر ہلاکت سے دوچار ہوا اور مولانا موصوف بفضل ایزدی مزید چالیس سال تک اسلام کی مخالف قوتوں خصوصاً قادیانیت کے خلاف مصروف جہاد رہے اور آخر کار یہ مجاہد اسلام ۱۹۴۸ء میں کبرسنی میں طبعی طور پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
مرزاقادیانی کے حاشیہ برداروں کے لئے اس سے زیادہ اور کیا مقام عبرت ہو سکتا ہے۔
اسلام کے ایک اور فرزند ڈاکٹر عبدالحکیم خان پٹیالوی نے مرزاقادیانی کو مناظرے کا چیلنج دیا تو اس نام نہاد پیغمبر کو اسے قبول کرنے کی ہمت تو نہ ہوئی۔ البتہ اپنا پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے ایک پیش گوئی فرمادی کہ: ’’عبدالحکیم چونکہ میری توہین وتذلیل کرتا ہے۔ اس لئے میری زندگی ہی میں مرے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۵۹)
یہ امر دلچسپ ہے کہ عبدالحکیم نے اسی زبان میں جواب دیتے ہوئے یہ پیش گوئی کی کہ: ’’قادیانی کاذب آج سے پندرہ ماہ بعد مر جائے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۵۸) شان خداوندی ملاحظہ فرمائیے کہ مرزاقادیانی تو اس مقررہ مدت کے دوران ہی جہنم رسید ہوا۔ لیکن عبدالحکیم صاحب عرصہ دراز تک بحیات رہے۔ لیکن حیف صدحیف قادیانیوں نے اس ذلت آمیز شکست ورسوائی کے بعد بھی درس عبرت حاصل نہ کیا۔
مرزاقادیانی کی کئی ایک پیش گوئیوں کے سبب امن عامہ شدید خطرے میں پڑ گیا تھا۔ حالات ایسی نازک صورت اختیار کر چکے تھے کہ قادیانی متنبی کی سرپرست برطانوی حکومت بھی اس کی مذموم حرکات کے خلاف امتناعی حکم جاری کرنے اور اس سے درج ذیل توبہ نامہ لینے پر مجبور ہوگئی۔
۱…
’’میں ایسی پیش گوئی شائع کرنے سے پرہیز کروںگا۔ جس کے یہ معنی خیال کئے جاسکیں کہ کسی شخص کو (یعنی مسلمان ہو خواہ ہندو ہو یا عیسائی وغیرہ ہو) ذلت پہنچے گی یا وہ مورد عتاب الٰہی ہوگا۔‘‘
۲…
’’میں خدا کے پاس ایسی اپیل (فریاد ودرخواست) کرنے سے بھی اجتناب کروں گا کہ وہ کسی شخص کو (یعنی مسلمان ہو خواہ ہندو ہو یا عیسائی وغیرہ) ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ مورد عتاب الٰہی ہے۔ یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔‘‘