برداشت بوجھ تلے پس رہا تھا۔ اس کا کذب مشتہر وعیاں ہوچکا تھا۔ اس کا ریت پر تعمیر شدہ جھوٹا قصر نبوت یک لخت زمین بوس ہوگیا تھا۔ وہ اس سزا کا مستحق تھا کہ اس کے گلے میں رسہ ڈالا جائے۔ عدل وانصاف کا تقاضا تھا کہ مرزاقادیانی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے آئندہ کذب بیانی سے تائب ہو جاتا۔ سابقہ گناہوں کا اقرار کرتا اور بقیہ زندگی ان کی سزا سے بچنے کے لئے اﷲتعالیٰ کے حضور ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے گذار دیتا۔ لیکن ہر پیش گوئی کی ناکامی پر مختصر خاموشی کے بعد یہ مراقی نبی اپنے حواریوں کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنے کے لئے ایک نئی تاویل پیش کر دیتا۔ ’’بعض اوقات کسی پیش گوئی کی توضیح میں غلطی کا امکان رہتا ہے۔ کیونکہ پیغمبر بھی تو فانی انسان ہی ہیں۔‘‘
مرزاقادیانی کی یہ تاویل محض عذر لنگ سے زیادہ نہ تھی اور نہ ہی مزید توضیح وتصریح کی محتاج۔
مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسریؒ سے متعلق پیش گوئی کا بھی یہی حشر ہوا۔ مرزاقادیانی نے بددعا کی تھی کہ دونوں میں سے جو کاذب ومفتری ہو۔ وہ ہیضے جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر فریق مخالف سے پہلے موت کا شکار ہو۔
’’اگرمیں کاذب ومفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ یعنی طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک! اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد وکذاب ہوں تو مولوی ثناء اﷲ کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ آمین! اور اگر مولوی ثناء اﷲ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے۔ حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ان کو نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک امراض سے۔‘‘
(مرزاقادیانی کا اشتہار مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)