’’خداتعالیٰ نے حضرت احمد علیہ السلام (مرزاقادیانی) کے بہئیت مجموعہ الہامات کو الکتاب المبین فرمایا ہے اور جداجدا الہامات کو آیات سے موسوم کیا ہے۔ حضرت (مرزاقادیانی) کو یہ الہام متعدد دفعہ ہوا۔ پس آپ کی وحی بھی جداجدا آیت کہلا سکتی ہے اور مجموعہ الہامات کو الکتاب المبین کہہ سکتے ہیں۔ پس جس شخص یا اشخاص کے نزدیک نبی اور رسول کے واسطے کتاب لانا ضروری شرط ہے۔ خواہ وہ کتاب شریعت کاملہ ہو یا کتاب المبشرات والمنذرات ہو تو ان کو واضح ہو کہ ان کی اس شرط کو بھی خدا نے پورا کر دیا ہے اور حضرت (مرزا قادیانی) صاحب کے مجموعہ الہامات کو جو مبشرات اور منذرات میں الکتاب المبین کے نام سے موسوم کیا ہے۔ پس آپ اس پہلو سے بھی نبی ثابت ہیں۔ ولو کرہ الاکافرون‘‘
(رسالہ احمدی نمبر۵تا۷، موسومہ النبوۃ فی الالہام ص۴۳،۴۴)
کتاب سے نوبت شریعت تک آئی۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:
’’یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امرونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا… میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
مرزاقادیانی کی شریعت کی جدّتیں
۱۴…جہاد کی تنسیخ
’’مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا۔ خدا کے حکم کے ساتھ بند کیاگیا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
۱۵…قادیان میں مسجد اقصیٰ
’’پس اس پہلو کی رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت کا سیر کشفی ہے۔ مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے۔ جو قادیان میں واقع ہے۔
’’پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۸)