اس زمانہ میں تمدنی ترقی زیادہ ہوئی ہے اور یہ جزوی فضیلت ہے جو حضرت مسیح موعود کو آنحضرتﷺ پر حاصل ہے… لوگ اعلیٰ تربیت کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ جن کا جواب بغیر ذہنی ترقی کے مشکل تھا۔ تلوار کے جہاد کی بجائے قلمی جہاد کا وقت تھا۔‘‘
(مندرجہ رسالہ آف ریلیجنز قادیان بابت ماہ مئی ۱۹۲۹ئ)
’’تین ہزار معجزات… ہمارے نبیﷺ سے ظہور میں آئے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳)
’’میری تائید میں اس (خدا) نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ… اگر میں ان کو فرداً فرداً شمار کروں تو میں خدائے تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۷۰)
اﷲتعالیٰ کے سچے رسول اور نبی، محمدرسول اﷲﷺ نے تو اپنے آپ کو اﷲتعالیٰ کا عبد یعنی بندہ اور رسول کہا۔ لیکن مرزاقادیانی نے ادعائے نبوت ہی پر اکتفاء نہ کیا۔ بلکہ اپنے آپ کو بمنزلہ اﷲتعالیٰ کی اولاد کے قرار دیا۔
نعوذ باﷲ من ذالک! چنانچہ مرزاقادیانی کا الہام ہے: ’’انت منی بمنزلۃ ولدی‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹)
۱۳…صاحب کتاب
مرزاقادیانی نے جب ابتداء میں نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلمانوں سے یہ کہا کہ میں قرآن اور شریعت محمدی کے سوا کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتا۔ لیکن یہ چیز ذہنی بھلاوے کے سوا کچھ نہیں تھی۔ کیونکہ رسالت سے مراد ہی صاحب وحی الٰہی ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ وحی الٰہی واجب التعمیل ہوتی ہے۔ چنانچہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مرزاقادیانی صاحب کتاب بھی بن گئے۔ ملاحظہ ہو: ’’حضرت مسیح موعود اپنی وحی اپنی جماعت کو سنانے پر مامور ہیں۔ جماعت احمدیہ کو اسی وحی پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ کیونکہ وحی اﷲ اسی غرض کے واسطے سنائی جاتی ہے۔ ورنہ اس کا سنانا اور پہنچانا ہی بے سود اور لغو فعل ہوگا۔ جب کہ اس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا مقصود بالذات نہ ہو۔ یہ شان بھی صرف انبیاء ہی کو حاصل ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے۔ حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو بھی قرآن میں یہ ہی حکم ملا اور ان ہی الفاظ میں ملا اور بعد حضرت احمد (مرزاقادیانی) کو ملا۔ پس یہ امر بھی آپ (مرزاقادیانی) کی نبوت کی دلیل ہے۔‘‘
(رسالہ احمدی نمبر۵تا۷، بابت ۱۹۱۹ء موسومہ النبوۃ فی الالہام ص۲۸)