آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوا۔ اگر آپ کی امت میں کوئی نبی نہیں ہے تو آپ خاتم النبیین بھی نہیں ہیں۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۲ نمبر۵۱ مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۱۵ئ)
’’وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مہر ہوگی۔ ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جائے تو نعوذ باﷲ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے… اس طرح تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باﷲ آنحضرت کی قوت قدسی کچھ بھی نہ تھی۔‘‘
(مندرجہ اخبار الحکم قادیان مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ئ)
’’ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے… ہم پر کئی سالوں سے وحی نازل ہورہی ہے اور اﷲتعالیٰ کے کئی نشان اس کے صدق کی گواہی دے چکے ہیں۔ اسی لئے ہم نبی ہیں۔‘‘
(مندرجہ اخبار بدر قادیان مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء منقول از حقیقت النبوۃ ص۲۷۲، ضمیمہ نمبر۳)
۱۰…مرزاکرشن
’’ہر ایک نبی کا مجھے نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے۔ جس کو رودرگوپال بھی کہتے ہیں۔ (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا) اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے۔ پس جیسا کہ آریا قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)
تاہم جب مرزاقادیانی نبی بنے تو ان کے امتی اپنا حصہ کیوں چھوڑنے لگے۔ چنانچہ اسی قادیانی اصول کے تحت نبوت کا دروازہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور مختلف قادیانیوں نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔ مثلاً چن بسویشور وغیرہ۔
۱۱…مرزاقادیانی خود حضرت محمد رسول اﷲ رفتہ رفتہ جب نبوت کچھ چل نکلی تو دعویٰ کیا گیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی خود محمد رسول اﷲﷺ ہیں۔ جو قادیان میں دوبارہ آئے ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: ’’اور ہمارے نزدیک تو کوئی دوسرا آیا ہی نہیں۔ نہ نیا نبی نہ پرانا۔ بلکہ خود محمد رسول اﷲ ہی کی چادر دوسرے کو پہنائی گئی ہے۔‘‘
(مندرجہ اخبار الحکم قادیان مورخہ ۳۰؍نومبر ۱۹۰۱ئ)
’’تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اﷲتعالیٰ نے پھر محمدﷺ کو اتار تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ۱۰۵، نمبر۳ ج۱۴)