معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علیٰ قلوبہم فہم لا یقبلون‘‘ ان کتابوں کو سب مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور مجھے قبول کرتے ہیں اور میری دعوت کی تصدیق کرتے ہیں۔ مگر بدکار رنڈیوں (زناکاروں) کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے وہ تجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ۵۴۷، خزائن ج۵ ص ایضاً)
گویا جو مسلمان مرزاقادیانی کی دعوت کی تصدیق نہ کریں۔ بدکار، رنڈیوں کی اولاد ہیں۔ مرزاقادیانی کی تحریرات میں گالیاں کمیاب نہیں وہ عادت سے مجبور تھے۔ ان گالیوں سے مرزاقادیانی کی اخلاقی ودماغی مرتبت کا صاف اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس حد تک ایک شریف انسان ایسے الفاظ استعمال کر سکتا ہے۔ اب قادیانی صاحبان ’’بغایا‘‘ کے لفظ کی تاویل کرنے لگے ہیں کہ کہیں مسلمانوں کے دل میں بیٹھ گئی تو بڑی مشکل ہوگی۔ مشہور عربی لغت ’’لسان العرب‘‘ میں اس کے معنی ملاحظہ ہوں:
ترجمہ: بغایا باندیوں کو کہتے ہیں۔ کیونکہ بدچلنی ان کا شیوہ تھا۔ پھر کثرت استعمال سے بالآخر اس کا اطلاق بالعموم فاجرات یعنی بدچلن عورتوں پر ہونے لگا۔ خواہ باندیاں ہوں خواہ آزاد۔
پھر قرآن میں سورۂ مریم رکوع:۲ ملاحظہ ہو: ’’قالت انیٰ یکون لی غلام ولم یمسنی بشر ولم اک بغیاً‘‘ مستند ترجمہ شاہ رفیع الدین دہلویؒ یہ ہے: ’’(مریم) بولی کہاں سے ہو گا میرا لڑکا اور چھوا نہیں مجھ کو آدمی نے اور کبھی نہ تھی میں بدکار،‘‘
اور مفتی اعظم قادیان مولانا سید محمد سرور شاہ قادیانی کا ترجمہ قرآن ملاحظہ ہو: ’’اس نے کہا میرے لڑکا کہاں سے ہوگا۔ حالانکہ مجھے کسی نے نہیں چھوا اور نہ میں بدکار تھی۔‘‘
۳…قرآن
’’مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۹، خزائن ج۱۷ ص۴۵۴)
۴…قادیانی قرآن
’’اور خدا کا کلام اس قدر مجھ پر نازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہ ہوگا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۷)