نے بہت غصہ ظاہر کیا کہ کیا یہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں۔ ان کو اس روپیہ سے کیا تعلق۔ اگر آج میں الگ ہو جاؤں تو سب آمدنی بند ہو جائے۔
پھر خواجہ صاحب نے ایک اور ڈیپوٹیشن کے موقعہ پر جو عمارت مدرسہ کا چندہ لینے گیا تھا۔ مولوی محمد علی سے کہا کہ حضرت (مرزاقادیانی) آپ تو خوب عیش وآرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خرچ گھٹا کر بھی چندہ دو۔ جس کا جواب مولوی محمد علی نے یہ دیا کہ ہاں اس کا انکار تو نہیں ہوسکتا۔ مگر بشریت ہے۔ کیا ضرور میرا ان باتوں کے لکھنے سے یہ مطلب تھا کہ یہ ابھی بات شروع نہیں ہوئی۔ بلکہ حضرت اقدس کے زمانے سے ہے۔ وہ (یعنی مرزاقادیانی) لنگر کا چندہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ آپ نے وہ بھی ان کے (یعنی خواجہ صاحب وغیرہ) کے حوالے کردیا۔ اب ان کو خیال سوجھا کہ چلو اور بھی سب کچھ چھینو۔ باقی رہا ان کا تقویٰ وہ تو ان کے بلوں اور بجٹوں سے بہت کچھ ظاہر ہوسکتا ہے کہ جس پر شور مچارہے ہیں وہ کام روز مرہ کرتے ہیں۔‘‘ (میاں محمود احمد کا خط بنام مولوی نورالدین خلیفہ اوّل، مندرجہ حقیقت اختلاف ص۵۰)
اس خط کے آخری فقرہ سے میاں صاحب کی گھبراہٹ جو ان کو اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ سب کچھ انجمن کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، جا رہا ہے، کسی قدر عیاں ہے۔ حضرت مولوی (نورالدین) کابھی اسی بڑا قصور قرار دیاگیا ہے کہ انہوں نے لنگر کا چندہ بھی انجمن کے حوالے کر دیا اور اب ان کو خیال سوجھا کہ چلو اور سب کچھ چھینو… مگر یہ سب کچھ چھین کر ہم کہاں لے جارہے ہیں۔ کیا اپنی جائیداد بڑھا رہے تھے یا قوم پر ہی صرف کر رہے تھے… ہاں میاں (محمود احمد) کی ذاتی جائیداد بے شک بہت بڑھ گئی ہے اور مریدوں کے بھی مکانات بن گئے ہیں۔‘‘
(حقیقت اختلاف ص۲۴)
ان تمام شہادتوں سے ظاہر ہے کہ چندوں کی آمدنی خود مرزاقادیانی کے اہل وعیال اور انتظام خانہ داری پر بھی خرچ ہوتی تھی۔ اب مرزاقادیانی کا وہ بیان ملاحظہ ہو جو انہوں نے عذرداری انکم ٹیکس کی کارروائی میں تحصیل دار بٹالہ کے سامنے دیا تھا۔
۵…املاک، آمدنی اور خرچ
’’اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی کل املاک منقولہ وغیرمنقولہ جو دس ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہیں ہوگی۔ عیسائیوں کو دے دوں گا۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۱۴؍دسمبر ۱۸۹۶ء مندرجہ تبلیغ رسالت ج۵ ص۲۴، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۵۱)