ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں۔ وہاں انہوں نے اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سرچڑھ گئیں کہ تم بڑے جھوٹے ہو۔ ہم نے قادیان میں جاکر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوا ہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے۔ لہٰذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر عرصہ دراز تک ہم کو دھوکہ دیتے رہے اور آئندہ ہم ہرگز تمہارے دھوکہ میں نہ آویں گی۔ پس اب وہ ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں۔ اس پر خواجہ (کمال الدین) صاحب نے خود ہی فرمایا تھا کہ ایک جواب تم لوگوں کو دیا کرتے ہو۔ مگر تمہارا وہ جواب میرے آگے نہیں چل سکتا۔ کیونکہ میں خود واقف ہوں اور پھر بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا… ان اعتراضات کے باعث مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ غضب خدا نازل ہورہا ہے اور میں متواتر دعاء میں مشغول تھا۔ باربار جناب الٰہی میں یہ عرض کرتا تھا کہ مولا کریم میں اس قسم کی باتوں کے خلاف ہوں۔ اس مجلس سے علیحدہ ہو جاتا مگر مجبور ہوں۔ بس تیرا غضب جو نازل ہورہا ہے اس سے مجھے بچانا۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۳)
مرزاقادیانی اس آمدنی پر اپنا حق اس لئے سمجھتے تھے کہ وہ خود ذریعۂ آمدنی ہیں اور اگر وہ خود علیحدہ ہو جائیں تو سب آمدنی بند ہو جائے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:
۴…مالی مناقشے
’’باقی آپ سے (یعنی مولوی حکیم نورالدین قادیانی خلیفہ اوّل سے) میں (یعنی میاں محمود احمد ابن مرزاغلام احمد قادیانی) یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ابتلاء اگر حضرت (مرزاقادیانی) زندہ رہتے تو ان کے عہد میں بھی آتا۔ کیونکہ یہ لوگ (یعنی خواجہ کمال الدین اور مولوی محمد علی لاہوری) اندر ہی اندر تیاری کر رہے تھے۔ چنانچہ نواب صاحب نے بتایا کہ ان سے انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حضرت (مرزاقادیانی) سے حساب لیا جائے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی وفات سے پہلے جس دن وفات ہوئی اسی دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب، مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے کہ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھر میں آکر آپ