اقارب کو اسی آمدنی میں سے خرچ دیتے تھے جو جماعت کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہوتی تھی یا کسی اور سبیل سے۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ حضور علیہ السلام (مرزاقادیانی) اسی آمد سے خرچ دیا کرتے تھے۔ پس آپ کے بعد انجمن (احمدیہ قادیان) کا فرض ہے کہ ان کو اسی آمد میں سے اسی انداز پر دیں جس طرح حضرت مسیح موعود دیتے تھے۔ کیونکہ انجمن مسیح موعود سے بڑھ کر امین نہیں ہوسکتی۔‘‘ (مریدوں کو بھی بہرحال مرزاقادیانی کا معیار امانت برقرار رکھنا لازم تھا۔ للمؤلف) (اظہار حقیقت ص۱۳ مورخہ ۲۸؍نومبر ۱۹۱۳ء جس کو قادیانیوں کی انجمن انصار اﷲ قادیان نے شائع کیا)
ایک اور شہادت ملاحظہ ہو: ’’لدھیانہ کا ایک شخص تھا۔ جس نے ایک دفعہ مسجد میں مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اﷲ صاحب کے سامنے کہا کہ جماعت مقروض ہوکر اور بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ بھیجتی ہے۔ مگر یہاں بیوی صاحبہ (مرزاقادیانی کی بیوی) کے زیورات اور کپڑے بن جاتے ہیں اور ہوتا ہی کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا اس پر حرام ہے کہ وہ ایک حبہ بھی سلسلہ کے لئے بھیجے اور پھر دیکھے کہ خدا کے سلسلہ کا کیا بگاڑ سکتا ہے اور آپ نے فرمایا کہ اس سے کبھی چندہ نہ لیا جائے۔ حالانکہ وہ پرانا احمدی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے بھی پہلے آپ سے تعلق رکھتا تھا۔‘‘ (جب ہی توبے تکلفی کا مزا چکھا۔ للمؤلف)
(الفضل قادیان ج۲۶ نمبر۲۰۰، مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۳۸ئ)
مزید شہادت ملاحظہ ہو:
۳…خانگی زندگی
’’اور جس روز مسجد کے چندہ کے واسطے کڑیانوالے کی طرف جارہے تھے اور جناب نواب خان صاحب تحصیلدار کے ٹانگے پر ہم تینوں سوار تھے۔ کوچوان اور خواجہ کمال الدین آگے تھے۔ میں (یعنی سید سرور شاہ صاحب اور جناب محمد علی صاحب) پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ تو خواجہ صاحب نے یہ فرماکر کہ راستہ باتوں میں طے ہوا کرتا ہے اور میرا ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں آتا۔ میں اسے پیش کرتا ہوں۔ آپ جواب دیں۔ سوال شروع کیا۔ صحیح اور یقینی مضمون اس کا یہ تھا۔ پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیاء اور صحابہ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اﷲ کی راہ میں دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے۔ لیکن جب