تھے۔ عام دفاتر تھے۔ یہ بلڈنگ دو منزلہ تھی۔ نیچے جنرل پریذیڈنٹ کا دفتر اور دیگر دفاتر محکمہ خزانہ محاسب کا دفتر، تبلیغ کا دفتر، دفتر اشاعت ٹریکٹ وپوسٹر مخالفین کے خلاف وغیرہ وغیرہ۔
ان دفاتر کے بالکل سامنے تقریباً ۱۲فٹ گلی کے ساتھ قصر خلافت الموسومہ قصر غلاظت تھا۔ جس میں خلیفہ محمود اوپر کی منزل میں رہتا اور ہر قسم کے اخلاقی الزامات اس قصر غلاظت میں ہوتے۔ جہاں ہر طرح سے عیش وطرب مہیا تھا، محمد فاضل نوجوان تھا۔ اس کو دفتر امور اوپر بلڈنگ میں بلایا گیا اور اس کو مختلف قسم کے لالچ دے کر مرزائی بنانے کی پیش کش کی۔ مگر اس کی عزت نے گوارہ نہ کیا اور جب وہ نہ مانا تو مختلف قسم کی دھمکیاں دی گئی اور کارخاص کے رضاکاروں نے اس پر ہنٹر برسائے اور اس کو گلے سے پکڑ کر ولی اﷲ شاہ ناظر امور عامہ کے حکم سے زدوکوب کیاگیا۔ گلا گھونٹا گیا۔ جس سے اس نے شور مچایا۔ مگر آواز باہر نہ آسکی تھی۔ گلا گھوٹنے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس جرم سے بچنے کے لئے اس کو دوسری منزل سے نیچے پختہ فرش دفاتر کے راستہ پر پھینک کر الٹا مرزائی ناظر ورضاکاروں نے شور مچایا کہ محمدفاضل نے خود کشی کر لی اور نعش کو باہر اپنے دفتر کے سامنے رکھ دیا اور اس کو مولا بخش کے ذریعہ دفانے کا انتظام کرنے لگے کہ راز فاش ہوگیا کہ محمد فاضل کو گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا۔ کیونکہ بعض ملازمین مرزائی ولی اﷲ شاہ سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے درپردہ مسلمانوں کو اطلاع دے دی تھی۔ مسلمانوں نے تھانہ میں اطلاع اور حکام کو بھی تفتیش ہوئی۔ پولیس نے دفاتروں کا موقعہ دیکھا۔ فرش پر خون کے دھبے گرانے کی وجہ جو آئی تھی۔ آفیسران نے موقعہ دیکھا۔ مگر انگریزی دور میں مرزائیوں کا کیا بگڑ سکتا تھا اور یہ لوگ روپیہ خرچنے میں بہت دلیر واقع ہوئے ہیں۔ پھر معاملہ قتل کا تھا۔ پولیس نے یہ تفتیش ناکام کر دی کہ موقعہ پر گلا گھوٹنے اور منزل سے گرانے کا کوئی گواہ نہیں ہے اور اس کی خود کشی دو منزل مکان کے نیچے چھلانگ لگانے کے، بہت سے مرزائی ملازم گواہ بن چکے تھے۔ اس طرح محمد فاضل کا قتل بھی چھپ گیا۔
اغوا وتفتیش
ہر حکومت کو مرزائی کی سابقہ دہشت گردی، محمد امین خاں مبلغ کا قتل، فخرالدین کا قتل، محمد فاضل کا قتل اور پھر ان قتلوں کو چھپانا اور جرم سے صاف بچ کر نکلنا مرزاطاہر احمد کا برقع پہن کر فرار ہونا۔ ان کے پاس ربوہ میں ناجائز اسلحہ کا سٹاک ان کی فاشی ذہنیت مسلمان طلباء کی ٹرین پر حملہ ان